افسانے ہزار ہیں

 

افسانے ہزار ہیں

افسانہ نگار   :  جمیل نظام آبادی

مبصر       :    ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

                                                                                   

            ہندوستان کی نو زائدہ 29ویں ریاست تلنگانہ میں فروغ اردو سرگرمیوں کے لئے جو اضلاع مشہور ہیں ان میں ایک ضلع نظام آباد ہے جہاں سے بے شمار شعر‘ا ادیب اور صحافی ابھرے ہیں ۔ گزشتہ چالیس سال سے یہاں اردو زبان کی آبیاری کے لئے جو شاعر ادیب اورصحافی مشہور ہوئے ہیں ان میں ایک اہم نام جمیل نظام آبادی کا ہے۔جنہوں نے اپنے نام کے ساتھ اپنے شہر کا نام جوڑتے ہوئے اردو کے فروغ کاحق ادا کردیا۔ وہ ایک نامور شاعر‘ادیب‘صحافی‘منتظم‘مدرس ہونے کے علاوہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی ہیں۔ جمیل صاحب کی ادارت میں نکلنے والا رسالہ ماہنامہ” گونج“ اپنی اشاعت کے چالیس سال مکمل کرچکا ہے اس لحاظ سے وہ کہنہ مشق صحافی اور ادیب بھی ہیں ایک عرصہ تک وہ علاقائی اردو اکیڈیمی مرکز کے مینیجر رہے جس کی بنا اردو اخبارات و رسائل ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے کہ مصداق جمیل نظام آبادی نے اپنی ادارت میں گونج کے کئی خاص نمبر اور افسانہ نمبر بھی شائع کئے اور شاعری کی طرح فن افسانہ نگاری کے اپنے شوق کو بھی جلا بخشتے رہے۔

            جمیل نظام آبادی کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”افسانے ہزاروں ہیں “کے عنوان سے2016میں شائع ہوا۔اس افسانوی مجموعے پر بات کرنے سے قبل جب ہم فن افسانہ نگاری کے فروغ پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ترقی پسند تحریک نے اردو افسانے کو فروغ دیا اور بیسویں صدی کے ہندوستان کے حالات اور ادب میں چل رہی تحریکوں کے سبب افسانہ نگاری کو فروغ ملا اور اپنے عہد کے مسائل کو افسانوں میں پیش کیا جانے لگا۔ زندگی کی بڑھتی رفتار نے ناول کے مقابلے میں افسانے کو مقبولیت عطا کی اور آزادی کے بعد سے آج تک افسانہ زندگی کے بیان کے سبب مقبول رہا۔ اکیسویں صدی کے اپنے مسائل ہیں۔ انسانی زندگی کی طرح کہانی کے رنگ بھی بدلے ہیں اور ہمارے افسانہ نگاروں نے اپنے عہد کا بغور مطالعہ کیا اور اسے فن افسانہ میں پیش کیا۔ جمیل صاحب چونکہ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں اور تجربات زندگی کو جس طرح وہ شعر کے سانچے میں ڈھال کر مضمون کو امر کردیتے ہیں اسی طرح انہوں نے اظہار کے سانچوں کے لئے فن افسانہ نگاری کو بھی اختیار کیا۔ چنانچہ ان کے افسانوی مجموعے ” افسانے ہزاروں ہیں“ میں ہمیں موضوعات کا تنوع ملتا ہے۔ اس افسانوی مجموعہ میں شامل افسانوں کے عنوانات ”اولڈایج ہوم کے قیدی‘ آج کے آدم وحوا‘ یہ کیسا درد ہے‘ میٹھا نیم‘ وفاوفا نہ رہی‘ شاطر ‘ راکھ میں دبی چنگاری‘ بے آواز لاٹھی‘آج کی دروپدی‘ وہ لڑکی‘ جب چڑیاں چک گئی کھیت‘ کیچڑ میں کھلا کنول‘ غبار ے دیکھتے رہے‘ صدیوں نے سزاپائی‘ کبھی کسی کومکمل جہاں نہیں ملتا‘ کٹھ پتلی‘ تمہیں کچھ نہیں آتا‘ میرا کونسا نمبر ہے‘ بہروپیہ‘ شادی مبارک۔وغیرہ ہیں۔

            جمیل نظام آبادی کے تحریر کردہ افسانوں کو جب ہم غور سے پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک فنکار کی طرح جمیل صاحب نے اپنے عہد کا مشاہدہ کیا اور ہمارے زندگی میں پیش آنے والے آئے دن کے حادثات اور واقعات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ محبت‘نفرت‘جنس‘ مادہ پرستی‘اخلاقی اقدار کی شکست و ریخت‘رشتوں کا ٹوٹنااور جڑنا سماجی مسائل سب کچھ ان افسانوں میں ہے۔ افسانوی مجموعے کے پہلے افسانے اولڈایج ہوم کے قیدی میں جمیل صاحب نے والدین کے تئیں اولاد کی نافرمانی اور ان کی پرورش میں کوتاہی کے اہم سماجی مسئلے کی عکاسی کی ہے۔بس میں عید کے سفر پر جارہے اولڈ ایج ہوم کے مکین ریڈی صاحب اور رحمت علی درمیان میں بیٹھے مسافر کو اپنے حالات زندگی سناتے ہیں اور اس سے دریافت کرتے ہیں کہ اس کی اولاد کے احوال کیا ہیں اور وہ ان کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں تب افسا نہ نگاراپنے بے اولاد ہونے کے غم کو بیان کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بے اولاد ہونا غم ہے یا خدا کا شکر۔ اس جذبے کی عکاسی کرتے ہوئے جمیل صاحب کرداروں کی زبانی یہ خیالات پیش کرتے ہیں:

            ”رحمت علی صاحب نے دعائیہ انداز میں کہا” بھائی صاحب آپ کو صرف ایک غم ہے کہ آپ کو اللہ نے اولاد نہیں دی۔ آپ ہماری طرح اولاد کے ستائے ہوئے تو نہیں ہیں“۔ ریڈی صاحب نے کہا” آپ کا چھوٹا ہی سہی گھر تو ہے ہماری طرح اولڈ ایج ہوم کے مجبور تو نہیں ہیں“۔ بس ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی اور میں انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھتا ہوا بس سے اتر گیا۔(اولڈ ایج ہوم کے قیدی)

            جمیل صاحب نے افسانے کو جس موڑ پر ختم کیا وہی افسانہ نگار کی فنکاری ہے ۔ افسانے میں زندگی کے کسی ایک پہلو کو چبھن کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور اس افسانے میں ریڈی صاحب اور رحمت علی کے خیالات اور مضمون نگار کو اولاد کے ضمن میں لگنے والا جھٹکا یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ اولڈ ایج ہوم کے ان صاحب اولاد قیدیوں سے وہ بے اولاد ہی بھلا ہے۔

            افسانہ” آج کے آدم و حوا“ میں جمیل نظام آبادی نے ایک ماہر فن کار کی طرح موجودہ دور کے متوسط طبقے کے شادی بیاہ کے مسائل کو بیان کیا ہے جب کہ سسرال میں اکیلی خاتون آشا کام کے بوجھ تلے پریشان ہوجاتی ہے اور سسرال والوں کے تنگ کرنے پر اپنے مائیکے چلی آتی ہے۔افسانہ نگار رشتوں کو جوڑنے پل کا کام کرتا ہے اور آشا سے ملانے اس کے شوہر آدرش کو اس کے گھر بلاتا ہے۔ کافی دنوں سے شوہر سے دور رہ کر آشا کو شوہر کی یاد ستاتی ہے اور آدرش بھی اپنی بیوی کو کھونا نہیں چاہتا۔ سسرال سے لوٹ آئی آشا کیوں کر آدرش کے ساتھ جانے اور سسرال کی عارضی سختیوں کو جھیلنے تیار ہوجاتی ہے اس بات کو ایک فنکار کے طور پر پیش کرتے ہوئے افسانہ نگار اپنے افسانے کا انجام یوں کرتے ہیں:

            ” میں آشا کو سمجھاتا رہا۔مگر مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ ان دونوں کے کانوں تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے کیوں کہ اب ان کی آنکھوں کی زبان نے اپنا کام شروع کردیا تھا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ کچھ دیر کے لئے انہیں تنہا چھوڑ دوں۔ میں وہاں سے اٹھ آیا وہ دونوں کمرے میں تنہا رہ گئے۔ تھوڑی دیر بعد آشا باہر آئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ مجھے لے جانا چاہتے ہیں۔ اس لئے میں واپس جارہی ہوں۔ پھر وہ اپنا سامان سمیٹنے اور پیک کرنے میں لگ گئی۔ “

            جمیل نظام آبادی نے جس انداز میں اس افسانے کا انجام کیا اس سے ان کی فن افسانہ نگاری پر عبور کا اندازہ ہوتا ہے۔ شادی کے بعد میاں بیوی کی دوری انہیں دنیاکے غم دور کرنے پر مجبور کردیتی ہے اور ایک دوسرے کا سایہ اور ساتھ انہیں دنیا کے اور رشتے داری کے عارضی غم سہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ جمیل صاحب کا یہ افسانہ سماجی تعمیر کا ایک اہم افسانہ ہے۔ جس سے رشتوں میں آنے والی دراڑوں کو پر کیا جاسکتا ہے۔

            افسانہ ” یہ کیسا درد ہے“ میں فنکار جمیل صاحب ایک اسکول کی غریب بچی نادرہ کے جذبات کو پیش کرتے ہیں جو اپنی کتابیںکھوجانے کے سبب پریشان تھی اور آخر میں ایک ہمدرد انسان کی مدد سے نادرہ نامی غریب بچی کی مدد ہوجاتی ہے۔

            افسانہ ”کڑوا نیم“ میںجمیل نظام آبادی نے سماج کے ایک کڑوے سچ کو پیش کیا کہ سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے کیسے سماج کے کردار جسم فروشی جیسی لعنت کو بھی قبول کرلیتے ہیں۔ اور سچی محبت کا دھرم بھرنے والے کڑوے نیم کومیٹھا سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ افسانے کی مرکزی کردار ثمینہ سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے سپرنٹنڈنٹ کرشنا کے ساتھ شب گزاری کرتی ہے۔ اس سے قبل و ہ ناصر سے محبت بھی کرتی ہے لیکن ناصر کو ملازمت نہ ملنے پر وہ جسم فروش ثمینہ سے شادی کے لئے راضی ہوجاتا ہے۔سماج میں پیش آرہے یہ واقعات ہی ہیں جنہیں جمیل صاحب جیسے افسانہ نگار میٹھا نیم بنا کر پیش کرتے ہیں۔افسانہ ”وفا وفا نہ رہی“ میں جنس اور ہوس پرستی کی ایک اور مثال پیش کی گئی جس میں اپنے شوہر سعید کے لا علاج مرض کے دوران اس کی ہوس پرست بیوی شوہر کے کمرہ وارڈ میں ہی اس کی نیند کی حالت میں اپنے دیور سے منہ کالا کرتی ہے ایک رات نیند کی گولی نہ کھا کر جب شوہر کو زرینہ کے کالے کرتوت دکھائی دیتے ہیں تو وہ اصل مرض کے بجائے قلب پر حملے سے موت کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کے پاس پڑی نیند کی گولیاں ثمینہ کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑی کرتی ہیں۔افسانہ ”شاطر“ میں بھی ناجائز رشتوں کی پول کھولی گئی ہے جب کہ شوہر کے ملک سے باہر رہنے کے دوران بیوی اپنے دوست سے ناجائز تعلقات رکھتی ہے۔ افسانہ” راکھ میں دبی چنگاری “بے آواز محبت کو پیش کرتا ہے جب کہ ایک افسر اپنی محبت کھو دینے کے بعد غمزدہ ہوگیا تھا لیکن تبادلے کے بعد اس کی محبت ایک شادی شدہ خاتون کی شکل میں اس کے دفتر میں ملتی ہے تو وہ ایک مرتبہ پھر اس سے دور ہوجانا چاہتا ہے۔ تب اس کے محبوبہ کہتی ہے:

            ” میری خوش نصیبی ہے کہ میرا محبوب میرے سامنے ہے تو ہے۔ اور اب میں اسے جی بھر کر دیکھ تو سکتی ہوں۔ آپ پھر مجھ سے میرا یہ سکھ چھین لینا چاہتے ہیں۔ یہ آپ کی شرافت ہے یا بزدلی میں نہیں جانتی۔ میں اس کی جرات رندانہ پر حیرت زدہ رہ گیا۔ محبت کا یہ روپ میرے لئے نیا مگر جانفزا تھا۔ پھر دوسرے ہی دن میں نے اپنے ٹرانسفر کی درخواست واپس لے لی“۔

            جمیل صاحب کے افسانوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اکثر افسانوں میں وہ واحد متکلم کے طور پر پیش ہوتے ہیں۔ کبھی افسانے کے اہم کردار کے روپ میں یا کبھی مصلح کے روپ میں۔ اور افسانے کا انجام تک پہونچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔افسانہ ”بے آواز لاٹھی“ میں سماج کی ایک اور لعنت لڑکیوں کی بے راہ روی کو پیش کیا گیا جب کہ مولوی اکمل کی لڑکیاں بھاگ کر شادی کرتی ہیں جب انہیں ان کے ایک داماد کی جانب سے طعنہ ملتا ہے تو وہ چپ رہ جاتے ہیں جب اسی داماد کی لڑکی اور مولوی اکمل کی نواسی کے بھاگ کر شادی کرلینے کی خبر ملتی ہے تو مولوی اکمل رنجیدہ ہونے کے بجائے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ اب دیکھو لڑکیوں کی بے راہ روی کا کرب کیا ہوتا ہے اس کے باپ کو محسوس ہونے دو۔ سماج کے اس رویے کو جمیل صاحب نے یوں ہی نہیں پیش کیا بلکہ اقدار کے شکست و ریخت کے اس ماحول میں یہ قصے اب چاروں طرف نظر آرہے ہیں۔ جن سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔افسانہ” آج کی دروپدی“ میں بھی مسلم طبقے کی لڑکیوں میں ہورہی بے راہ روی کو پیش کیا گیا ہے جس میں ایک لڑکی کی شادی کے دن بھی اپنے دوستوں سے عیاشی کو پیش کیا گیا ہے اور شب عروسی میں وہ اس لئے مطمئن ہوجاتی ہے کہ اس کے بھولے بھالے شوہر کو اس کے کالے کرتوت کا پتہ نہیں چلا۔ افسانہ نگار ایک مصور کی طرح سماج کے مختلف رنگ بڑی بے باکی سے پیش کرتے جاتے ہیں اور انہیں اس تصویر کشی میں سماج کا کوئی ڈر نہیں لگتا۔افسانہ ”وہ لڑکی“ ایک نفسیاتی افسانہ ہے جس میں ایک کم عمر طالبہ اپنے اسکول کی بڑی عمر کے استاد پر عاشق ہوجاتی ہے لیکن ایک خوشگوار موڑ پر وہ راہ راست پر آجاتی ہے۔” جب چڑیاں چگ گئی کھیت “میں ایک ایسے گھرانے کا قصہ پیش کیا گیا ہے جس میں ایک شخص ناجائز لڑکی رکھنے والی خاتون سے محبت کرتا ہے اور دوسری طرف اس کی لڑکی کو بھی اپنے دام میں گرفتار کر لیتا ہے اور وہ دونوں ناجائز حمل والی ہوجاتی ہیں۔ یہ افسانہ بھی سماج پر ایک طنز ہے۔

            جمیل نظام آبادی کے دیگر افسانے بھی بولڈ ہیں۔ انہوں نے عصر حاضر کے عجیب و غریب نفسیاتی اور جنسی جذبات پر مشتمل قصوں کو افسانوں کا روپ دیا ہے۔ ان کے افسانوں کے کردار ہمارے سماج کے جیتے جاگتے کردار ہیں۔ ان میں مذہب کی کوئی قید نہیں ہندو مسلم سب اس سماج میں اپنے کرتوت کے سبب سامنے آتے ہیں۔ جمیل نظام آبادی کے موضوعات اچھوتے ہیں جس سے ان کی گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ افسانوں میں کردار نگاری مکالمہ نگاری اور زماں و مکاں بھر پور ہے۔ افسانوں کے پلاٹ میں کہیں جھول نظر نہیں آتا۔ منٹو کی طرح جمیل صاحب نے بھی جنس کو محظ تلذذ کے لئے نہیں بلکہ بہ طور فن پیش کیا ہے۔ واحد متکلم کی طرح وہ اکثر افسانوں میں خود اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ ان کے سماجی موضوعات پر لکھے افسانے بھی سماجی اصلاح میں اہم رول انجام دیتے ہیں۔ ان کے افسانے ترقی پسندی اور جدیدیت کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ اگر وہ افسانہ نگاری کا سفر جاری رکھیں تو مزید شاہکار افسانے پیش کرسکتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment

Search This Blog