ادبی و تہذیبی رپورتاژ



نام کتاب   :       ادبی و تہذیبی رپورتاژ

مصنف                   :        ڈاکٹر محمد ناظم علی

مبصر             :        ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی


          حیدرآباد دکن میں اردو کے زود نویس قلم کاروں میں ایک اہم نام ڈاکٹر محمد ناظم علی کا ہے۔جو ایک اچھے ادبی صحافی‘محقق‘نقاد اور سماجی دانشور ہیں۔تحقیقی و تنقیدی موضوعات پر ان کی اب تک نو کتابیں آئینہ عصر‘روح عصر‘عکس ادب‘حیدرآباد کے ادبی رسائل آزادی کے بعد‘پروفیسر آل احمد سرور فکر وفن‘ادبی بصیرت‘تنقید فکر‘افکار جدید اور نقش ہیں سب ناتمام شائع ہو کر مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔ اردو اخبارات و رسائل میں ان کے فکر انگیز مراسلے اور ادبی مضامین آئے دن زینت بنتے رہتے ہیں ۔ اردو دنیا نئی دہلی‘سب رس حیدرآباد اور دیگر رسائل میں ان کے مراسلے اور تبصرے بہ طور خاص شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ حیدرآباد اور تلنگانہ کی ادبی محفلوں میں وہ بہ طور خاص شرکت کرتے ہیں ۔مقالے پیش کرتے ہیں اور ادب کے کسی بھی موضوع پر عصری تقاضوں کو ہم آہنگ رکھتے ہوئے گفتگو کرتے ہیں۔ وہ شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کے ان فاضل طلباءمیں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اردو سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے سرکاری ملازمت حاصل کی۔ پبلک سرویس کمیشن کا امتحان کامیاب کرتے ہوئے ڈگری کالج میں اردو لیکچرار کے طور پر خدمات انجام دیں اور بہ حیثیت پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نظام آباد سے وظیفہ پر سبکدوش ہوئے اور اب مستقل طور پر حیدرآباد میں مقیم ہیں اور اپنی علمی و ادبی سرگرمیوں میںمصروف کار ہیں۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی زمانہ طالب علمی سے ہی ایک ذہین اسکالر رہے ہیں۔ انہوں نے تحقیق کے شعبہ میں بھی کارہائے نمایاں انجام دئے اور ”حیدرآباد کے ادبی رسائل آزادی کے بعد“عنوان پر ایک گراں قدر تحقیقی مقالہ لکھا۔ اپنے اس کام کے دوران انہوں نے حیدرآباد کے بیشتر ادبی رسائل کے پہلے شمارے کو کھوج کر قارئین کے روبرو پیش کیا۔ انہوں نے پروفیسر اشرف رفیع کے زیر نگرانی اردو کے نامور نقاد پروفیسر آل احمد سرور کے فکر و فن پر پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ لکھا اور بعد میں اسے کتابی شکل دی۔ ان کے اس کام کی ہند و پاک میں کافی پذیرائی کی گئی۔ اب ڈاکٹر محمد ناظم علی اپنی دسویں تصنیف ”ادبی و تہذیبی رپورتاژ“ کے ساتھ حاضر ہورہے ہیں۔ اس تصنیف میں انہوں نے حیدرآباد اور تلنگانہ کی مختلف جامعات میں منعقدہ ادبی سمیناروں ‘اردو اساتذہ کے لیے منعقدہ اردو ریفریشر کورسز اور مختلف ادبی تنظیموں کی جانب سے منعقدہ ادبی اجلاسوں کی رپورتاژوں کو یکجا کرکے پیش کیا ہے۔ انہوں نے رپورتاژ لکھنے کا یہ سلسلہ 1999سے شروع کیا اور اس کتاب میں حالیہ عرصے تک منعقدہ بعض اہم سمیناروں اور ادبی اجلاسوں کی روداد شامل ہے۔

          رپورتاژ نگاری کی صنف مغرب سے اردو ادب میں آئی اور ترقی پسند تحریک سے اس کو عروج حاصل ہوا۔اس صنف کی تشکیل میں صحافت اور ادب کا امتزاج شامل ہے۔ کسی بھی ادبی اجلاس کی روداد جس میں روداد نگارواقعات کو دلچسپ انداز میں اس طرح پیش کرے کہ روداد کے ساتھ لکھنے والے کا اسلوب بھی دلچسپی پیدا کردے اسے رپورتاژ کہتے ہیں۔کرشن چندر نے اردو کا ابتدائی رپورتاژ” پودے“ کے عنوان سے لکھا جس میں حیدرآباد میں منعقدہ ایک اردو کانفرنس میں بمبئی سے آئے ادیبوں کی شرکت کو افسانوی رنگ میں پیش کیا گیا تھا۔ اچھا رپورتاژ وہی سمجھا جاتا ہے جس میں روداد کے ساتھ افسانوی رنگ اور اسلوب کی چاشنی ہو۔رپورتاژ نگاری کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ قارئین کو کسی اجلاس کی روداد سے اس طرح واقف کرایا جائے کہ اسے پڑھنے کے بعد قاری کو احساس ہو کہ اس نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔ طمانیت کا احساس بھی رپورتاژ کی کامیابی کی ایک مثال ہے۔ اردو کے اخبارات و رسائل میں رپورتاژ کی اشاعت سے اس فن کو جلا ملی اور اب یہ باقاعدہ غیر افسانوی نثر کی صنف مانی جاتی ہے۔ڈاکٹر محمد ناظم علی کی اس تصنیف میںکل24ادبی اجلاسوں اور سمیناروں کے رپورتاژ شامل ہیں۔ ان کی رپورتاژ نگاری کی خاص بات یہ ہے کہ وہ جس اجلاس میں بھی شرکت کرتے ہیں اس کی روداد کو پہلے محفوظ کرتے ہیں اور پھر جزئیات نگاری کے ساتھ پیش کرتے ہوئے اپنی تنقیدی رائے بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے رپورتاژ نگاری میں ایک خاص پہلو نکالا کہ اردو اساتذہ کے لیے جو ریفریشر کورس منعقد ہوتے ہیں ان کی تفصیلات بھی رپورتاژ میں پیش کردیں۔ عام طور پر یونیورسٹی اور ڈگری کالج کے اساتذہ کے لیے تین ہفتوں کے ریفریشر کورسز کا اکیڈیمک اسٹاف کالج کی جانب سے انعقاد عمل میں آتا ہے جس میں ملک بھر کی جامعات اور کالجوں کے اساتذہ شرکت کرتے ہیں۔ ماہر اساتذہ مختلف ادبی موضوعات پر فکری و تحقیقی بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی نے اساتذہ کے لیے مخصوص ان ریفریشر کورسز کی یادوں کو رپورتاژ میں پیش کرتے ہوئے اردو اساتذہ کے علاوہ دیگر قارئین کی معلومات میں اضافے کی کوشش کی ہے۔ ان ریفریشر کورسز میں مختلف علاقوں کے اساتذہ ایک دوسرے سے تہذیبی تبادلہ خیال کرتے ہیں اور دوران کورس اپنے سوالات سے موضوع سے متعلق وسیع تر معلومات کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تفصیلات ڈاکٹر محمد ناظم علی کے رپورتاژوں کا حصہ ہیں۔ اردو یونیورسٹی حیدرآباد میںمنعقدہ تیسرے اردو ریفریرشر کورس کی روداد بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ناظم علی نے پروفیسر افضال صاحب کے حوالے سے لکھا کہ” اردو والوں کا خواب شرمندہ تعبیر مانو وسے ہوا۔لیکن ذمہ داران پر یہ گراں بہار ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دانش مندانہ و مفکرانہ انداز سے اس کے منصوبوں پر عمل آوری کریں۔مانو ایک مشن ہے اور اس کو منزل مقصود تک پہونچانا سب کی ذمہ داری ہے“ عثمانیہ یونیورسٹی صدی تقاریب کے ضمن میںمنعقدہ سمینار کی رپورٹ میں پروفیسر انور معظم کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ” اردو کا بنیادی سطح پر کام ہونا ہے۔جڑیں سوکھ رہی ہیں۔اس کی آبیاری ناگزیر ہے“ ۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی نے اردو کے دیگر کئی سمیناروں میں شرکت کی اور ان کی روداد کو دلچسپ انداز میں پیش کیا۔ چاہے وہ گری راج کالج نظام آباد کا سمینار ہو یا تلنگانہ یونیورسٹی‘مولانا آزاد اردو یونیورسٹی یا کسی اور کالج کا۔ ان سمیناروں کی روداد پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سمینار میں موضوع سے متعلق کون کونسے گوشوں پر مباحث ہوئے اور ان کا نتیجہ کیا رہا۔ڈاکٹر محمد ناظم علی کے یہ ادبی رپورتاژ گزشتہ دو دہائیوں میں دکن کی ادبی تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اور کافی عرصہ گزر جانے کے بعد جب ان رپورتاژوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حیدرآباد اور علاقہ تلنگانہ میں کون کونسے پروگرام ہوئے تھے۔ ان رپورتاژوں میں جن ماہرین کے بیانات کے اقتباسات شامل ہیں ان سے ادب کے بارے میں دانشوروں کی رائے کا پتہ چلتا ہے۔ اردو زبان کے مسائل اور ان کے حل سے واقفیت ہوتی ہے۔حیدرآباد میں جناب جلیل پاشا مرحوم کی جانب سے ہر سال منعقد ہونے والی کل ہند اردو کانفرنسوں کی روداد کا پتہ چلتا ہے۔یہ رپورتاژ اردو زبان و ادب تحقیق و تنقید کا اشاریہ ہیں جن کی بنیاد پر اردو کے اسکالر تحقیق و تنقید میں قدم بڑھا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی کا اسلوب نگارش سادہ اور رواں ہے وہ ایک اعتدال پسند اور حق گو نقاد کی طرح دوران گفتگو اپنی رائے بھی دیتے جاتے ہیں۔ جو موزوں اور بروقت لگتی ہے۔ڈاکٹر محمد ناظم علی نے رپورتاژ نگاری کی جس روایت کو اس تصنیف میں پیش کیا ہے اس سے امید ہے کہ اردو رپورتاژ نگاری کا دامن وسیع ہوگا ۔ ہر علاقے کے ادیب یا اردو اسکالرز اس طرح کے رپورتاژ پر مبنی کتابیں شائع کرتے رہیں تو اردو کے ادبی اجلاسوں کی تاریخ مرتب ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی کو ان کی اس منفرد کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش ہے۔امید ہے کہ ڈاکٹر محمد ناظم علی اسی طرح ادبی رپورتاژ پیش کرتے رہیں گے اور اردو زبان و ادب کے قاری کو ادبی اجلاسوں کی روداد سے استفادے کا موقع ملے گا۔ اردو اکیڈیمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہونے والی اس کتاب کو مصنف سے فون:9397994441پر رابطے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

 

                                                         

                                                          

No comments:

Post a Comment

Search This Blog