مجھے کچھ کہنا ہے - شیخ احمد ضیاء



 

            نام کتاب       :        مجھے کچھ کہنا ہے

            مصنف   :           شیخ احمد ضیاء

            مبصر                  :           ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

           

            شمالی تلنگانہ کے ضلع نظام آباد کا ایک اہم ٹان بودھن ہے جس سے متصل علاقہ شکر نگر ایشاءکی اپنے وقت کی مشہور زمانہ نظام شوگر فیکٹری کے لیے مشہور رہا ہے۔ سرزمین بودھن زمانہ قدیم سے اردو زبان و ادب کی آبیاری کے لیے جانی جاتی ہے۔ بودھن سے کئی نامور شعراءاور ادیبوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت بنائی ہے ان میں ایک نامور ادیب‘شاعر‘مزاح نگار اور انشاءپرداز جناب شیخ احمد ضیاءصاحب ہیں جوطنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے مجموعے”مجھے کچھ کہنا ہے“ کے ساتھ ایک مرتبہ پھر اردو ادب کی دنیا میں ہلچل مچانے آئے ہیں۔ اس سے قبل شیخ احمد ضیاءکی تصانیف ”زیر زبر پیش“ 2005‘” افکار تازہ“2009‘ اور”وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں“2016 مقبول ہوچکی ہیں۔شیخ احمد ضیاءاچھے سنجیدہ اور مزاحیہ شاعر بھی ہیں اور تلنگانہ میں سبھی مشاعروں میں عوام وخواص میں مقبول ہیں۔ شیخ احمد ضیاءزندہ دل شخص ہیں۔ لوگوں سے ہنس بول کر ملتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کو قریب سے دیکھا اور اپنے تجربات کو جہاں شاعری میں پیش کیا وہیں مختلف عنوانات پر طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے ذریعے اردو کے قارئین تک پہونچایا ہے۔ اکیسویں صدی گلوبل ولیج کے دعوے کے باوجود فرد کی تنہائی کی صدی ہے۔ آج انٹرنیٹ کی بدولت دنیا ہمارے فون کے اسکرین پر سمٹ گئی ہے لیکن سوشل میڈیا کے شور کے درمیان انسان ایک چبھتی ہوئی خاموشی و تنہائی کا شکار ہے۔ شخصیت سازی کے ایک ماہر کا یہ کہنا ہے کہ We are the most connected people with most disconnected society.یعنی ہم میڈیا کے ذریعے تو دنیا بھر سے جڑے ہیں لیکن سماجی طور پر ایک دوسرے سے ہمارا رابطہ منقطع ہے۔ آج ایک گھر کی چہاردیواری میں باپ بچوں سے ‘ماں شوہر اور بیٹے بیٹیوں سے بات کرنے کے لیے ترستی ہے۔ بوڑھے لوگوں کا الگ المیہ ہے بڑھاپا ان کے لیے ایک عذاب جان بن گیا ہے اور وہ اپنی اولاد کے سہارے کے لیے بے چین ہے۔ زندگی اپنی تمام تر رونقوں اور رعنائیوں کے باوجود بے مزہ ہے اس افراتفری اور مادہ پرستی کے ماحول میں ایک طنزیہ و مزاحیہ ادیب بہت بڑا سماجی فریضہ انجام دے رہا ہے کہ وہ اپنے اطراف کے ماحول کے کرب کو دیکھتا ہے اور اس سے طنز و مزاح کے پہلو نکالتا ہے۔ یہ کام شیخ احمد ضیاءاپنے طنزیہ و مزاحیہ مضامین سے بہت خوب کر رہے ہیں۔ شیخ احمد ضیاءصاحب کی تحریروں کی اسی خوبی کو مد نظر رکھ کر نظام آباد کے مشہور سرکاری ڈگری کالج گری راج کالج کے شعبہ اردو کے اردو نصاب میں ان کا ایک طنزیہ و اصلاحی افسانہ ”اولڈ ایج ہوم “شامل کیا گیا ہے۔اپنے سابقہ مضامین کے مجموعوں کی طرح شیخ احمد ضیاءکی اس تصنیف”مجھے کچھ کہنا ہے“ میں شامل سبھی مضامین عہد حاضر کی ہماری سماجی زندگی کی ناہمواریوں کو ظاہر کرتے ہیں جس میں شیخ احمد ضیاءنے کہیں طنزکے کچوکے لگائے ہیں تو کہیں مزاح کی پھلجھڑی چھوڑی ہے۔ طنز دل کو چبھتا ہے اور ایک نشتر کی طرح اصلاح کا کام کرتا ہے جب کہ مزاح زندگی کی ناہمواری کو خوشگوار انداز میں پیش کرنے اور اس سے اصلاح کا پہلو اخذ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

            زیر نظر تصنیف کا پہلا شگفتہ مضمون”گھر دامادی“ ہے۔ اس مضمون میں ایک ایسے نوجوان کا فسانہ یا یوں کہیے برا انجام بیان کیا گیا ہے جو گھر داماد بننے کا خواہش مند تھا۔ اس کی خواہش تو پوری ہوتی ہے لیکن شادی کے دوسرے دن سے ہی اس کی تیز و طرار بیوی اور خسر اس سے جس طرح گھر کے کام کاج لیتے ہیںکہ وہ گھبرا کر گھر دامادی کو ترک کر فرار ہوجاتا ہے اور نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہے کہ ”میاںہوسکے تو دھوبی کے گدھے بن جا مگر کبھی گھر داماد نہ بننا“۔ اس مضمون میں شیخ احمد ضیاءنے دلچسپ اسلوب نگارش کے ساتھ گھر دامادی کی خواہش اور اس کے انجام کو اجاگر کیا ہے۔کتاب میں شامل اگلے مضمون کا عنوان”گھر کی مرغی دال برابر“ میںموجودہ دور کے مشاعروں کے کلچر پر طنز کیا گیا ہے جہاں ناشاعر قسم کے گویوں اور شاعرات کو جو باہر سے آتے ہیں انہیں اسٹیج پر اہمیت دی جاتی ہے اور مقامی شاعر جو معیاری ہوتا ہے اسے گھر کی مرغی دال برابر سمجھ کر اسے نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ جس سے مقامی شاعر اپنی تضحیک محسوس کرتے ہیں۔ اس مضمون کے ذریعے شیخ احمد ضیاءنے اردو مشاعروں کے منتظمین کو خبردار کیا ہے کہ وہ مشاعروں کے نام پر مجرے بازی ختم کریں اور کسی بھی مشاعرے میں بیرونی شعرا کے ساتھ ساتھ مقامی شعراءکو بھی عزت سے مشاعروں میں شرکت کا موقع فراہم کریں۔مضمون ”گھر گھر ثانیہ“ میں شیخ احمد ضیاءنے مچھر بیاٹ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس بیاٹ کو مچھروں کو بھگانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے کہیں گھریلو خواتین ثانیہ مرزا نہ بن جائیں۔مضمون”وہ پھر ہمیں یاد کرنے لگے ہیں“ میں شیخ احمد ضیاءنے موجودہ دور کے جلسوں میں صدارت کے خواہش مندوں کی گرتی علمی لیاقت پر طنز کیا کہ کیسے مولانا آزاد کی یاد میں رکھے گئے جلسے میں کسی نے مولانا آزاد کو ہندوستان کے میزائل میان عبدالکلام سے ملا دیا اور کیسے صدر نے کہا کہ مولانا آزاد مسجد کے امام تھے۔ اس مضمون میں ہمارے انگوٹھا چھاپ سیاست دانوں پر طنز کیا گیا کہ وہ کسی موضوعاتی جلسے میں کرسی صدارت پر تو براجمان ہوتے ہیں لیکن انہیں تقریر کرتے وقت پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔شیخ احمد ضیاءکا ایک دلچسپ مضمون”جامع سروے اور شاعر “ ہے۔ اس مضمون میںریاست تلنگانہ میں ہوئے ایک جامع گھر گھر سروے کے دوران ایک شاعر سے پوچھے گئے سوالات اور اس کے دلچسپ شاعرانہ جوابات کو اشعار کی لڑی کے ذریعے پیش کیا گیا۔مضمون کا ایک حصہ ملاحظہ ہو

            ” جب شمار کنندہ نے ان کی ازدواجی زندگی خصوصاً ان کی اہلیہ کے بارے میں سوال کیا تب انہوں نے کہا

            جسے سب لوگ ہٹلر بولتے ہیں        اسے ہم نصف بہتر بولتے ہیں

            اجی ہم کیا ہماری حیثیت کیا             یہاں گونگے بھی فرفر بولتے ہیں

بچوں کی تعداد کے بارے میں جب سوال کیا گیا تب جواب ملا

            سب سے چھوٹا چھ مہینے کا   اس کے اوپر ہیں گیارہ (مجھے کچھ کہنا ہے)

            اس طرح اس مضمون میں شیخ احمد ضیاءنے مختلف مقبول اشعار کو برمحل استعمال کرتے ہوئے مزاح پیدا کیا ہے۔مضمون”غالب وظیفہ خوار ہوا“ میں موجودہ دور میں وظیفہ پر سبکدوش ہونے والے سرکاری ملازمین کی بعد وظیفہ مسجد کی صدارت یا کسی تنظیم کی رکنیت اور سماجی خدمات میں وقت گزارنے کا ذکر کیا گیا ہے۔مضامین مشاعرہ‘کنوینر مشاعرہ اور صدر مشاعرہ میں اردو مشاعروں کے انتظام و انصرام میں کام کرنے والوں کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ شیخ احمد ضیاءچونکہ پابندی سے مقامی اور ریاستی و قومی مشاعروں میں شرکت کرتے رہتے ہیں اس لیے انہیں مشاعروں میں مختلف قسم کے لوگوں سے ملاقات کا تجربہ ہے اسی بنیاد پر انہوں نے مشاعروں کے کرداروں کے طور پر صدر مشاعرہ‘ناظم مشاعرہ اور سامعین کے رویوں کو مزاحیہ اور طنزیہ انداز میں بیان کیا ہے۔ داد کے بھوکے شاعروں کے بارے میں شیخ احمد ضیاءنے درست لکھا کہ ”اگر شاعر تین دن کا بھوکا بھی ہو اور سامعین اسے اپنی واہ واہ سے نواز رہے ہوں تب یہ شاعر مزید تین دن بھوکا رہنا بھی گوارا کرلے اور غزلوں پر غزلیں سناتا چلا جائے گا“۔کنوینر مشاعرہ کے عنوان سے شیخ احمد ضیاءنے مشاعروں کے انتظام میں اس طرح کی شخصیات کے کردار کو اجاگرکیا ہے کہ کیسے یہ لوگ شاعروں سے اچھا یا برا رویہ اختیا ر کرتے ہیں۔مضمون ”انٹرویوبرائے الیکشن“ میں ایک ملازمت کے متلاشی ایک نوجوان کے ایک سیاسی پارٹی میں دئے گئے انٹرویو کا طنزشامل ہے کہ کس طرح پارٹی والے نوجوان سے لڑائی جھگڑے‘قتل و غارت گری اور دھوکے بازی میں مہارت کے بارے میں پوچھتے ہیں جب نوجوان نفی میں جواب دیتا ہے تو اسے دھتکار دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اندر یہ صفات ہی نہیں تو وہ کیسے ایک اچھا سیاست دان بن سکتا ہے۔ اس طرح شیخ احمد ضیاءنے ہمارے سیاسی نظام کا پردہ فاش کیا کہ موجودہ سیاسی جماعتوں میں کوئی بھی لیڈر اس وقت تک لیڈر نہیں بن سکتا جب تک اس کے اندر تخریب کاری کی صفات نہ ہوں۔مضمون”کیا خوب اثاثہ ہے“ میںعام آدمی کے روٹی کپڑے اور مکان کے چکر اور سیاست دانوں کے ہاں بڑھتی دولت کی وجوہات کو اجاگر کیا گیا ہے۔

            طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعے”مجھے کچھ کہنا ہے “ میں شامل دیگر مضامین کے عنوانات ”شوہر بیوی اور عید‘عادت سے مجبور‘لائسنس یافتہ‘مری تلاش میں ہے‘جلسہ استقبال رمضان‘زباں شیریں ملک گیری‘رمضان کی رونقیں‘بات نکلی جو کبابوں کی تو سب ایک ہوئے‘زیر یہ اچھا نہیںہے زبر یہ اچھا نہیں‘سحری ان کی افطار بھی ان کا‘ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے‘عید گاہ لائیو‘ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے شاعروں کے‘ہر گھڑی ہوتا ہے احساس‘اس سے معقول انتقام نہیں‘لڑکی کے باپ کا خط لڑکے کے والد کے نام‘لڑکے کے والد کا جواب لڑکی کے باپ کے نام‘میٹھی آزادی کڑوے پھل‘بانڈی وال کی قیادت‘پیچان کون‘بکروں کی عالمی کانفرنس‘منتری سے انٹرویو‘بھوک شاعر اور بیگم‘ہورہا ہے اب اثر غالب تری تحریر کا‘عرض ہنر ہی وجہ شکایات ہوگئی‘کتوں کی عالمی کانفرنس‘انتخابات کا اس دیش میں جال اچھا ہے‘بی سی کمیشن کے لیے ایک مثالی یادداشت‘جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں‘اکیچ میٹھا ایکچ کھانا‘ایک روپیہ کلو چاول کا المیہ‘گل خان‘استاد کا استاد چیلا‘نادانوں کا اجتماع‘ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے‘بودھن جہاں تاریخ ادب معاش سب کچھ وغیرہ شامل ہیں۔

            شیخ احمد ضیاءکے یہ مضامین دلچسپ انداز تحریر‘ برمحل اشعار کے استعمال اور ہمارے اپنے سماجی موضوعات کے سبب دلچسپی سے پڑھے جائیں گے۔ ان مضامین میں انہوں نے خطوط کی تکنیک‘غالب سے عالم بالا میں گفتگو اور پیروڈی کے انداز میں اشعار کے استعمال سے دلچسپی پیدا کی ہے۔ شیخ احمد ضیاءکے مضامین روزنامہ منصف میں بھی سلسلہ وار کالموں کی شکل میں پیش ہوتے رہے ہیں۔ موضوعات کی رنگارنگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ احمد ضیاءاپنے اطراف سے باخبر رہتے ہیں اور اردو ادب سے ذوق کے پیش نظر اپنے موضوعات کو ادبی چاشنی کے ساتھ پیش کرتے رہتے ہیں۔ جس طرح وہ اپنے اطراف کے موضوعات کو اہمیت دیتے ہیں اگر وہ اپنا مطالعہ اور مشاہدہ وسیع کرتے ہوئے مزید قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر مضامین لکھیں تو ان کی مزاح نگاری میں مزید نکھار پیدا ہوسکتا ہے۔ان مضامین کی نثر سادہ لیکن دلچسپ ہے ۔ انداز بیان میں قاری کو گرفت میں رکھنے کا ہنر ملتا ہے واقعاتی انداز بھی ہے ۔ شیخ احمد ضیاءکبھی اپنی جانب سے تخلیق کردہ کردار مرزا سے گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تو کبھی سماج کے اہم کردار‘بیوی‘شوہر اور سیاست دان کو تختہ مشق بناتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کی یہ تصنیف دلچسپی کی حامل ہے۔ اور مصنف کی اپنے فن پر عبور کی دلالت کرتی ہے۔ امید ہے کہ اردو ادب کے باذوق قارئین شیخ احمد ضیاءکی تازہ تصنیف”مجھے کچھ کہنا ہے“ کا گرمجوشی سے استقبال کریں گے۔ مصنف نے اس کتاب کو اپنے مرحوم والدین شیخ امین پٹیل اور والدہ محترمہ نور بی بی کے نام معنون کیا ہے۔ اور اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی یادوں کے اجالے زندگی کے ہر موڑ پر ان کی رہنمائی کرتے رہے۔ چونکہ موجودہ زمانہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا ہے مناسب ہوگا کہ اس طرح کے مضامین بلاگ کی شکل میں اور فیس بک اور واٹس اپ کے ادبی گروپوں میں پیش ہوں تو اردو کی نئی نسل آن لائن مطالعے کے ذریعے ان مضامین سے مستفید ہوگی اور لوگوں میں مطالعے کا ذوق بڑھے گا اورفروغ اردو کی جانب ایک قدم ثابت ہوگا۔ اس کتاب کی اشاعت پر میں جناب شیخ احمد ضیا صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اردو کے ادبی حلقوں میں اس کتاب کی پذیرائی ہوگی اور شیخ احمد ضیاءاسی طرح اپنے نام کی مناسبت سے مزید مضامین لکھ کر اردو ادب میں روشنی بکھیرتے رہیں گے۔

 

                                                                                                ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی 

No comments:

Post a Comment

Search This Blog