سفینہ ادب“(تحقیقی و تنقیدی مضامین)

نام کتاب : ”سفینہ ادب“(تحقیقی و تنقیدی مضامین)

مصنف :            ڈاکٹر عزیزسہیل

مبصر  :  ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

            ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل نئی نسل سے تعلق رکھنے والے اردو کے ایک ہمہ جہت ادیب اور قلمکار ہیں۔ اردو میں تحقیقی و تنقیدی مضامین لکھنا اور اردو کتابوں پر تبصرہ کرنا ان کا ادبی مشغلہ ہے۔ انہوں نے جامعہ عثمانیہ سے اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔اب نظم و نسق عامہ مضمون میں مولانا آزاد اردو یونیورسٹی سے بھی دوسری مرتبہ پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ تلنگانہ کے اقامتی اسکول میں اردو مدرس کی حیثیت سے حیدرآباد میں سرکاری ملازمت پر مامور ہیں۔ اپنی تخلیقات کو اخبارات و رسائل میں شائع کراتے رہتے ہیں اور انہیں اردو کی اہم ویب سائٹس پر بھی پیش کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز سہیل نئی نسل کے اردو کے ایسے ادیب ہیں جو کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں۔ اپنی تخلیقات کو دنیا بھر کی مقبول عام ویب سائٹس پر پیش کرتے رہتے ہیں یہی وجہہ ہے کہ جب کوئی گوگل میں ان کا نام ٹائپ کرتا ہے تو ان کے نام سے بہت سی تخلیقات سامنے آتی ہیں اردو کی نئی نسل کے ادیبوں کے لیے وہ ایک مثال ہیں کہ خود ہی اردو میں مضامین ٹائپ کرتے ہیں اور ای میل کی سہولت سے اشاعت کے لیے روانہ کرتے ہیں۔کرونا وباءکے بعد دنیا بھر میں جو تعلیمی نظام میں تبدیلی واقع ہوئی اور آن لائن تعلیم کا سلسلہ چل پڑا ہے ڈاکٹر عزیز سہیل اس معاملے میں بھی میر کارواں ہیں اور اپنی سرکاری ضروریات کی تکمیل کرتے ہوئے انہوں نے اردو نصاب کی تفہیم کے بہت سے کار آمد ویڈیوز تیار کئے ہیں جو یوٹیوپ پر دنیا بھر کے ناظرین کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کر رہے ہیں۔ عزیز سہیل کا اپنا ایک بلاگ ”معمار جہاں“ کے عنوان سے بھی گوگل پر دستیاب ہے۔جس پر ان کی تخلیقات اور تصانیف کی تفصیل دیکھی جاسکتی ہیں۔ ڈاکٹرعزیز سہیل کا تعلق ریاست تلنگانہ کے ضلع نظام آباد سے ہے ان کے والد محترم جناب مولوی عبدالغفار صاحب اپنے وقت کے بڑے داعی اور سماجی جہت کار گزرے ہیں۔ علمی گھرانے سے تعلق رکھنے کے سبب ڈاکٹر عزیز سہیل نے کم وقت میں اپنے جوہر نکھارے اور اب اردو زبان و ادب کے مضبوط سپاہی کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ تلنگانہ کے ریسرچ اسکالرس کی تنظیم سے وابستہ ہیں اور اردو ریسرچ اسکالرس کو آگے بڑھانے میں تعاون پیش کرتے رہتے ہیں۔ اردو کتابوں کی اشاعت کے معاملے میں وہ برق رفتار ہیں یہی وجہہ ہے کہ گزشتہ پانچ چھ سال میں ان کی اب تک دس کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔جن میںادبی نگینے2014۔ڈاکٹر شیلا راج تاریخی و ادبی خدمات 2014۔سماجی علوم کی اہمیت مسائل اور امکانات 2015۔میزان نو2015۔مولوی عبدالغفار حیات و خدمات2016۔دیار ادب2016۔رونق ادب2017۔فکر نو 2017۔مضامین ڈاکٹر شیلا راج2018۔نظم و نسق عامہ میں ابھرتے رجحانات2019شامل ہیں۔ڈاکٹر عزیزسہیل کے تحقیقی و تنقیدی مضامین پر مشتمل گیارہویں تصنیف”سفینہ ادب“ کے عنوان سے ڈسمبر 2019ءمیں اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ کے جزوی مالی تعاون سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاز نئی دہلی سے شائع ہوئی۔ کتاب کے مشمولات میں حرف آغاز ڈاکٹر محمد غوث‘پیش لفظ پروفیسر سید فضل اللہ مکرم‘عزیز از دکن ڈاکٹر غضنفر اقبال ‘ تقریظ ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی ‘اپنی بات ڈاکٹر عزیز سہیل اور مضامین میںکلام اقبال اور قرآن ‘امجد حیدرآبادی کی شاعری اور قرآن و حدیث‘عصر حاضر میں بچوں کا ادب اور بچوں کے رسائل ایک جائزہ‘آصف جاہی حکمرانوں کی رواداری‘حیدرآباد کے کائستھ خاندان کے چند غیر مسلم شعرائ‘ تلنگانہ میں اردو کا فروغ مسائل اور امکانات‘اردو یونی کوڈ سسٹم اور چند نمائندہ ویب سائٹس ایک جائزہ‘تبصرہ اور تبصرہ نگاری‘مہجری ادب برطانیہ اور حبیب حیدرآبادی‘رپورتاژ نگاری کا فن اور عبدالرحیم نشتر کی رپورتاژ نگاری‘رپورتاژ نگاری میں خواتین قلمکاروں کی خدمات‘اردو شاعری اور عید’امجد حیدرآبادی حیات اور شخصیت‘ عظیم شاعر و اعلیٰ فنکار مضطر مجاز‘پیکر خلوص جناب حلیم بابر ‘بلبل دکن پروفیسر فاطمہ پروین‘ڈاکٹر سروشہ نسرین قاضی ایک مطالعہ‘فروغ اردو کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال اور ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی کی خدمات ‘چہر چہرہ آئینہ عبداللہ ندیم۔

            مضامین کے مجموعے“سفینہ ادب“ کے مشمولات پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ واقعی ڈاکٹر عزیزسہیل نے اردو ادب کے بحر بیکراں میں اپنے قلم کا سفینہ چابک دستی سے چلایا ہے اور اس بحر سے اردو زبان و ادب تحقیق و تنقید کے قیمتی موتی چن لئے ہیں۔ شخصیات کے علاوہ اقبالیات‘امجد حیدرآبادی‘تبصرہ نگاری اور رپورتاژ نگاری پر ان کے مضامین ان کے گہرے مطالعے کا پتہ دیتے ہیں۔ حرف آغاز کے عنوان سے ڈاکٹر محمد غوث سکریٹری ڈائرکٹرتلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی لکھتے ہیں کہ” ڈاکٹر عزیزسہیل کا شمار تلنگانہ کے نثر نگاروں میںہوتا ہے انہوں نے سخت محنت اور سنجیدہ جستجو سے نئے لکھنے والوں میں اپنی منفرد پہچان بنالی ہے۔بہ حیثیت نثر نگار کے اردو کے غیر افسانوی ادب پر ان کی تحریریں قابل تحسین ہیں۔“ پیش لفظ میں پروفیسر سید فضل اللہ مکرم ڈاکٹر عزیزسہیل کے تعلق سے لکھتے ہیں کہ” جب تک وہ اردو سے پی ایچ ڈی تھے انہوں نے نظم و نسق عامہ کے لیکچرر کی حیثیت سے کام کیا اب انہوںنے تہیہ کیا تھا کہ نظم و نسق عامہ میں بھی پی ایچ ڈی کریں گے تو خدا نے انہیں اردو زبان و ادب کی تدریس کے لیے مامور کیا۔ڈاکٹر عزیزسہیل محنتی‘دیانت دار اور سچی لگن سے پڑھنے پڑھانے والی شخصیت کا نام ہے“۔گلبرگہ کے نامو ادیب محقق و نقاد ڈاکٹر غضنفر اقبال عزیز از دکن کے عنوان سے ڈاکٹر عزیزسہیل کے اسلوب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:” ان کے مضامین کا سہل اسلوب متوازن رویہ اور اعتدال کی روش اختیار کیے ہوئے ہے ان کے نثری بیانیہ نے علم افروز تحریروں کو جنم دیا ہے۔ان کے تحقیقی محاکمات خوبصورت پیرائے میں بیان ہوئے ہیں ۔ڈاکٹر عزیزسہیل عصری ادب سے آشنا ہیں اسی لیے وہ تعمیر پسند ادیب کی ذمہ داری خوب نبھارہے ہیں“۔ڈاکٹر اسرار الحق سبیلی لکھتے ہیں:” نئی کتابوں کو دیکھ کر دل مچلنا اور اس کا مطالعہ کرنا بچوں اور بڑوح کی فطرت میں شامل ہے لیکن اس سے بڑھ کر اس مطالعہ کو قلم بند کرنا اور اس پر اظہار خیال کرنا بڑی اچی عادت اور شوق ہے اور یہ شوق عزیز سہیل میں بدرجہ اتم موجود ہے جس کے نتیجے میں انہوں نے مضامین نو کے انبار لگا دئیے۔

            سفینہ ادب کے پہلے مضمون میں ڈاکٹر عزیزسہیل نے کلام اقبال اور قرآن کے عنوان سے اقبال کے قرآن سے غیر معمولی لگا اور ان کی شاعری پر اس کے گہرے اثرات کو اقبال کے مختلف اشعار اور مختلف مفکرین کے بارے میں ان کی رائے کو پیش کرتے ہوئے لکھا کہ اقبال کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر قرآن مجید کا دکھائی دیتا ہے ۔مضمون کے آخر میں انہوں نے اس عالمی حقیقت کو آشکار کیا کہ آج بھی ہدایت سے دور بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے نجات کی راہ قرآن مجید ہی ہے۔ اگر لوگ اس حقیقت پر عمل پیرا ہوجائیں تو وہ اقبال کے سچے جانشین بن سکتے ہیں۔مضمون امجد حیدرآبادی کی شاعری اور قرآن و حدیث میں ڈاکٹر عزیزسہیل نے رباعیات امجد میں قرآنی اشارات کو ان کی رباعیات کی مثالوں سے واضح کیا ہے۔انہوں نے لکھا کہ چونکہ امجد کی تعلیم و تربیت دینی ماحول میں ہوئی تھی اسی وجہہ سے انہوں نے اپنی رباعیات میں اسلامی فکر کو قرآن و حدیث کے مضامین اور سیرت رسول ﷺ کے اشاروں سے پیش کیا ہے۔قرآن کی عظمت پر انہوں نے یہ رباعی پیش کی ہے۔

                                                            ہروقت فضائے دلکشا دیکھتے ہو

                                                            صحرا و چمن ارض و سما دیکھتے ہو

                                                            مخلوق میں نیرنگی خالق دیکھو

                                                            قرآن پڑھو جلد کو کیا دیکھتے ہو

            بچوں کے ادبی رسائل سے متعلق مضمون ڈاکٹر عزیز سہیل نے اچھی تحقیق کی ہے اور ہندوستان سے جاری ہونے والے بچوں کے اہم رسائل کا تعارف پیش کیا ہے۔ اسی ضمن میں انہوں نے نظام آباد سے جاری ہونے والے رسالے التوحید کا تعارف بھی پیش کیا ہے۔اپنے مضمون میں انہوں نے پروفیسر ابن کنول کی اس رائے کو بھی شامل کیا ہے کہ بچوں کا ادب لکھنے کے لیے ادیب کو بچوں کی ذہنی سطح تک نیچے اترنے اور بچوں کی دلچسپی کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔آصف سابع کی رواداری مضمون میں ڈاکٹر شیلا راج کے مضمون کے حوالے سے ڈاکٹر عزیزسہیل نے میر عثمان علی خاں کی رواداری کی مختلف مثالیں پیش کی ہیں اور آصف سابع کی رواداری کو ایک ایسے دور میں اجاگر کیا جب کہ ملک بھر اور دکن میں مسلم حکمرانوں کو فرقہ پرست اور ظالم قرار دینے کی مذموم حرکتیں کی جارہی ہیں۔حیدرآباد کے کائستھ خاندان کے چند غیر مسلم شعراءایک تحقیقی مضمون ہے جس میں دور آصفی میں کائستھ خاندان کے افراد کی خدمات کا احاطہ کرتے ہوئے اس دور کے چند اہم شعراءکا تعارف پیش کیا گیا ہے اس مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ انیسویں صدی میں حیدرآباد دکن میں اردو شعرو شاعری میں غیر مسلمین کی کافی تعداد مقبول تھی۔تلنگانہ میں اردو کا فروغ مسائل اور امکانات کے تحت ڈاکٹر عزیزسہیل نے نئی ریاست تلنگانہ میں اردو کے موقف اور اسے سرکاری اور خانگی سطح پر عام کرنے کی تجاویز پیش کی ہیں۔مضمون کے آخر میں ان کی پیش کردہ تجاویز میں سرکاری دفاتر میں اردو کے چلن کو عام کرنا۔ اردو کتابوں کی اشاعت اور اردو کو ٹیکنالوجی سے جوڑنا وغیرہ شامل ہیں۔

            سفینہ ادب میں شامل دیگر مضامین بھی اپنے موضوع کی بھرپور وضاحت کرتے ہیں۔ڈاکٹر عزیزسہیل اپنے منتخب کردہ موضوع کو مختلف مثالوں سے واضح کرتے ہیں اس موضوع سے متعلق ماہرین کی رائے پیش کرتے ہیں اور اپنی تجاویز بھی رکھتے ہیں ان کا اسلوب سادہ اور رواں ہے۔ قاری کو ان کی تحریر بوجھل محسوس نہیں ہوتی ان کے موضوعات میں تنوع ہے۔ اور قارئین کے لیے دلچسپی کا سامان بھی ان کی تحریروں میں پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر عزیز سہیل کو ان کی گیارہویں تصنیف کی اشاعت پر مبارکباد پیش ہے۔ 192صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 250روپے رکھی گئی ہے اور یہ تصنیف مصنف سے رابطہ کرکے یا ایجوکیشنل بک ہاز نئی دہلی اور ملک کے اہم کتابی مراکز سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ انٹرنیٹ کے اس عالمی رابطے کے دور میں ڈاکٹر عزیزسہیل کے لیے تجویز ہے کہ وہ اپنی کتابوں کو عالمی کتابوں کے پلیٹ فارم پر رکھیں تاکہ اردو کی نئی بستیوں سمیت عالمی سطح پر ان کی تحریروں سے اردو داں طبقہ استفادہ کرسکے۔        


No comments:

Post a Comment

Search This Blog