بچوں کے حالی از ڈاکٹر سید تقی عابدی

                                                                                                                                                                                                                                                                                       نام کتاب                       :           "بچوں کے حالی"

            مصنف   :                       ڈاکٹر سید تقی عابدی


مبصر     :           ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

 

                        ڈاکٹر سید تقی عابدی اردو ادب کے عالمی منظر نامے پر ایک جانا پہچانا نام ہے۔ وہ بر صغیر‘یورپ امریکہ اور کناڈا میں اردو کے نامور محقق‘ماہر اقبالیات‘غالب ‘فیض و انیس کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ڈاکٹر سید تقی عابدی پیشے سے طبیب ہیں لیکن اکثر اپنے خطابات میں اپنے آپ کو مریض اردو قرار دیتے ہیں۔ پیشہ وارانہ سرگرمیوں کے لحاظ س کناڈا میں مقیم ہیں لیکن اپنے ادبی ذوق کی تکمیل کے لیے سال میں ایک یا دو مرتبہ برصغیر کا دورہ کرتے ہیں ۔ حیدرآباد ‘دہلی ‘لکھنوئ‘ لاہور کراچی وغیرہ میں مختلف ادبی اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ اور اپنے تحقیقی مطالعے سے ادب کے چاہنے والوں کو مستفید کرتے جاتے ہیں۔ خطابت کے علاوہ تصنیف و تالیف بھی ان کا اہم مشغلہ ہے۔ فیض‘اقبال‘انیس اور حالی پر ان کی کئی شاہکار کتابیں سامنے آئی ہیں۔دوران تحقیق وہ آئے دن اردو ادب کے ذخیرے سے بیش قیمت جواہر تلاش کرکے نکال لاتے ہیں اور اپنے منفرد انداز تحقیق سے اسے ادب کے چاہنے والوں کے لیے پیش کرتے ہیں۔ بچوں کے ادب کے ضمن میں ان کی ایک تحقیقی کتاب” بچوں کے حالی“ کے عنوان سے حالی کی صد سالہ برسی کے موقع پر 2014ءمیں بک کارنر جہلم پاکستان سے شائع ہوئی ہے۔اس کتاب میں انہوں نے حالی کے احوال‘بچوں کے ادب کی اہمیت‘بچوں کے لیے حالی کی شاعری اور ان کی نظموں کا انتخاب پیش کیا ہے۔ کتاب کے مشمولات میں عکس حالی کے تحت حالی کی تصویر‘عکس تحریر مولانا حالی کے تحت حالی کی تحریر کا عکس‘پیش لفظ سید تقی عابدی‘ حالی کی کہانی حالی کی زبانی مولانا حالی‘مولانا حالی کی حیات اور شخصیت ‘بچوں کی نظموں پر ایک نظر کے تحت ڈاکٹر سید تقی عابدی کے دو مضامین شامل ہیں ۔ کتاب کے دوسرے حصے میں بچوں کی نظمیں گوشے کے تحت حالی کی نظمیں خدا کی شان‘ بڑوں کا حکم مانو‘مرغی اور اس کے بچے‘بلی اور چوہا‘شیر کا شکار‘پیشے‘گھڑیاں اور گھنٹے‘دھان بونا‘روٹی کیوںکر میسر آتی ہے‘موچی‘چٹھی رساں‘سپاہی‘ایک چھوٹی بچی کے خصائل‘نیک بنو نیکی پھیلا شامل ہیں۔ حالی کی یہ نظمیں جواہرات حالی کتاب سے لی گئی ہیں جو مثنوی‘مسدس اور قطعہ کی ہئیت میں لکھی گئی تھیں۔

            ڈاکٹر سید تقی عابدی کی یہ تصنیف” بچوں کے حالی“ بچوں کے ادب میں ایک اہم اضافہ ہے۔ کیوں کہ حالی نے ادب برائے زندگی کے تحت جو ادب کے افادی پہلو کا نظریہ پیش کیا تھا اس کے ضمن میں بچوں کی تربیت کے لیے ان کی لکھی گئی نظموں کو الگ سے شائع کرنا اور بچوں کے لئے پیش کرنا بھی ڈاکٹر سید تقی عابدی کا ایک اہم کارنامہ ہے۔ چونکہ ڈاکٹر سید تقی عابدی ایک بلندپایہ محقق ہیں اس لیے انہوں نے بچوں کے لکھی گئی کتاب میں حالی کی حیات پر بھی مفصل روشنی ڈالی ہے۔ تاکہ مستقبل میں جب بھی حالی پر کوئی تحقیق ہو تو آنے والے محققین کے لیے حالی سے متعلق معلومات مستند طور پر دستیاب ہوں۔کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر سید تقی عابدی نے حالی کے کلام کے انتخاب میں تحقیقی مراحل کو بیان کیا ہے۔ حالی کی نظموں کے مواد کے بارے میں حالی کے حوالے سے ڈاکٹر سید تقی عابدی لکھتے ہیں کہ:

            حالی نے یہ بھی بتایا کہ انسان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ کسی چیز کو عدم سے وجود میں لا سکے۔نئے خیالات سے مراد وہی عام خیالات ہیں جن کو شاعروں نے ترک کردیا تھا اور معمولی خیالات سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔جب کہ انہی خیالات میں زندگی کے راز چھپے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ نظموں میں اسلاف کے اقوال و واقعات اور حکایات کو بھی بیان کیا گیا ہے۔“ ( پیش لفظ)

            ”بچوں کے حالی“ کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر سید تقی عابدی نے حالی کی کہانی حالی کی زبانی شامل کی ہے جس میں حالی کی جانب سے اپنی سوانح کا بیان ہوا ہے۔اس کے بعد ڈاکٹر سید تقی عابدی نے حالی کی مکمل اور مفصل سوانح مختلف سرخیوں کے تحت پیش کی ہے۔ جس میں ان کے حالات زندگی اور تصانیف کا ذکر کیا ہے۔ حالی پر تحقیق کرنے والوں کے لیے یہ مواد کافی معاون ثابت ہوسکتا ہے۔حیدرآباد میںحالی کو وظیفہ مقرر کئے جانے کے ضمن میں ڈاکٹر سید تقی عابدی نے حالی کے حوالے سے ایک واقعہ لکھا ہے:

            ” جب حیدرآباد کے نواب سرآسمان جاہ نے حالی کی شعری اور ادبی کاوشوں سے متاثر ہوکر انہیں ماہاناہ وظیفہ دینے کا فیصلہ کیا تو سرسید نے پوچھا آپ کو گزر بسر کرنے کے لیے کتنا وظیفہ چاہئے۔حالی نے جواب دیا ۔مجھے اینگلو عربک اسکول سے جو ساٹھ روپے ماہوار ملتے ہیں تو حیدرآباد کے سکہ رائج الوقت کے پچھتر روپے ہوتے ہیں۔یہی میری زندگی بسر کرنے کے لیے کافی ہے(بچوں کے حالی ص ۶۵)اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حالی سادگی اور قناعت پسند تھے۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی نے لکھا کہ حالی نے اپنی تخلیقات سے فائدہ نہیں اٹھایا ۔سوائے ایک کتاب کے دیگر کتابوں پر پبلیشرز اشاعت کے بعد مالی فائدہ اٹھالیتے تھے۔حالی کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے کے بعد مصنف کتاب ڈاکٹر سید تقی عابدی نے بچوں کی نظموں پر ایک نظر کے عنوان سے بچوں کے ادب کی افادیت پر روشنی ڈالی ہے۔ بچوں کے ادب کی کمی کا شکوہ کرنے کے بعد انہوں نے بچوں کے ادب کی خصوصیات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

            ” بچوں کے ادب کی زبان سیدھی سادی‘سلیس و شگفتہ ور پیچیدہ تشبیہات اور استعارات سے پاک ہونی چاہئے۔ایسی عدق اور مشکل بھی نہ ہو کہ جس سے سمجھنے میں میں دقت پیش آئے۔ان کے علاوہ اگر ادب میں بچکانہ پن نہ ہو تو وہ صحیح معنوں میں بچوں کا ادب نہیںکہلائے گا۔یعنی شعر و ادب میں بچوں کے سن و سال سے ہم آہنگ ہو اور طرز بیان کچھ ایسا ہو جو بچوں کی نفسیات اور جذبات سے میل کھاتا ہوجس کی وجہ سے بچوں کا کامیاب ادیب و شاعر خود اس تخلیق کے وقت بچہ بن جاتا ہے۔“ ( ص ۶۷۔۷۷)

            بچوں کے ادب کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر سید تقی عابدی نے اردو میں بچوں کے ادب کی روایت بیان کی اور نظیر‘اسماعیل میرٹھی اقبال وغیرہ کے نظم نگاری کی مثالیں پیش کیں۔بچوں کے لیے حالی کی جانب سے لکھی گئی نظموں کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر سید تقی عابدی لکھتے ہیں کہ:

            ” حالی نے بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی چودہ نظمیں لکھی ہیں ۔یہ نظمیں حالی کی زندگی کے آخری دور کی نشانیاں ہیں۔ حالی نے ان نظموں کے لیے مربع‘مخمس‘مسدس اور مثنوی کی ہئیت استعمال کی ہے۔حالی کی ان نظموں کا ماخذ جواہرات حالی ہے صرف نظم نیک بنو نیکی پھیلا مجموعہ نظم بچوں کا اخبار لاہور سے لی گئی ہے۔حالی کی نظموں کی یہ تعداد صحیح نہیں ہے۔ اگر تلاش اور تحقیق کی جائے تو مزید نظموں کے ملنے کا امکان ہے۔سب سے بڑی نظم مثنوی” پیشے“ کے عنوان سے لکھی اور سب سے چھوٹی نظم قطعہ ”بلی اور چوہا“ چھ شعر کا لکھا۔حالی کی ان نظموں میں بیانیہ اندازہلکے پھلکے مگر دلچسپ موضوعات‘تفریحی اور معلوماتی اشعار جو آسانی سے بچوں کو یاد ہوجائیں نظر آتے ہیں۔ان نظموں میں حالی نے بچوں کی نفسیات کا خاص خیال رکھا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے پڑھنے والے کو بچہ بن کر پڑھنا پڑے گا۔ورنہ وہ اس کے لطف و مزے سے فائدہ اٹھا نہیں سکے گا۔حالی نے کسی حد تک بچوں کی نظموں میں اسماعیل میرٹھی کی نظموں کی تقلید کی ہے۔اگرچہ وہ اس سطح تک پہنچ نہ سکے“۔ ( ص ۸۷۔۹۷)

            حالی کی نظم نگاری کی خصوصیات بیان کرنے کے بعد ڈاکٹر سید تقی عابدی نے معنوی اعتبار سے بچوں کے لیے لکھی گئی حالی کی نظموں کا تجزیہ پیش کیا ہے۔مسدس حالی میں موجود نعتیہ اشعار وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا کے ضمن میں ڈاکٹر سید تقی عابدی لکھتے ہیں:

            ” حالی نے اپنے کلام میں جابچا عشق رسول ﷺ کو ظاہر کیا ہے۔وہ سیرت رسول ﷺ کو شریعت کا لازم جانتے تھے۔وہ حضور ﷺ کی تعلیمات ‘اخلاقیات‘حقوق انسانی کی حفاظت‘حریت اور حضور ﷺ کی اور ان کی اولاد کی محبت کو جزو ایمان مانتے تھے۔اور یہ محبت کا بیج و بچپن سے دل میں بونا چاہتے تھے تاکہ وہ آگے چل کر عشق محمدی ﷺ کا توانا درخت بن جائے“۔ ( ص۔ ۲۹)

             ڈاکٹر سید تقی عابدی حالی کی نظم ”گھڑیاں اور گھنٹے“کے ضمن میں لکھتے ہیں:

            ” حالی کی بچوں کی نظموں میں سب سے نسبتاً مشکل نظم گھڑیاں اور گھنٹے کے عنوان سے مسدس کی شکل میں چوبیس اشعار کی نظم ہے جس کا محور وقت ہے۔یعنی گھڑیاں جو وقت بتانے کا آلہ ہیں وہ دن رات کام کرتی رہتی ہیں۔انہیں دن رات گرما سرما اوپر نیچے امیر غریب بلندی پستی شاہ و گدا سب کے پاس ایک ہی حالت میں مسلسل چلتی رہتی ہیں۔تھکن اور آرام ان کے لیے موت ہے۔چنانچہ انسان کو بھی رکنا نہیں چاہئے بلکہ زندگی کا سفر ہر طرح اور ہر طریقے سے جاری و ساری رہے۔

                        دوپہر ہو یا رات ہو صبح ہو یا شام    جب دیکھئے چلنے سے سدا اپنے انہیں کام

                        دیتے ہیں سنو غور سے ہردم یہ دہائی            لو وقت چلا ہاتھ سے کچھ کر لو کمائی( ص۔ ۸۸)

            بچوں کے لیے لکھی گئی حالی کی نظموں کے پیغام کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر سید تقی عابدی لکھتے ہیں:

            ” حالی کے تمام تر کلام کا مطالعہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ ان کی شاعری کا ایک اہم مقصدبچوں اور نئی نسل کے نوجوانوں میں تعلیم و تربیت کا شوق محنت اور کوشش کی عادت‘شرافت اور انسانیت کی نمو‘اخلاق و کردار سازی کے ساتھ ساتھ وقت کی قدر ہمت و استقلال کا جذبہ پیدا کرنا تھا۔وہ جانتے تھے بزرگوں پر اخلاقی فرض ہے کہ وہ بچوں کی راہنمائی کریں۔اور اکثر لوگ غفلت برتتے تھے چنانچہ خود انہوں نے سیدھی سادہ زبان میں میٹھے میٹھے انداز میںان قدروں کو اپنی نظموں میں ایسا پیش کیا کہ جو فوری دل نشین ہوگئے۔۔۔ حالی قصے کہانی کے ذریعے بچوں اور نوجوانوں میں نیکی‘ہمدردی اور مدد کے جذبہ ابھارتے ہیں۔کہیں یہ بتاتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا چراغ جو راستے پر بڑھیا نے رکھا ہے وہ محلوں کے ان فانوسوں اور برقی جھاڑوں سے بہتر ہے کیوں کہ مٹی کا یہ چراغ کئی لوگوں کا مونس اور مددگار ہے۔دراصل یہی وہ چراغ ہیں جن کی معنوی روشنی افلاک تک پھیلی ہوئی ہے“ ( ص۔۱۹)

            حالی کی نظموں کے جائزے کے بعد کتاب” بچوںکے حالی“ میں منتخب نظمیں شامل کی گئی ہیں۔اس مجموعے سب سے پہلی نظم جو شامل کی گئی ہے اس کا عنوان”خدا کی شان“ ہے ۔یہ نظم اکثر بچوں کی اردو نصابی کتابوں میں شامل کی گئی ہے نظم کا پہلا شعر یوں ہے۔

            اے زمین آسمان کے مالک             ساری دنیا جہان کے مالک

اسی طرح ایک نظم نیک بنو نیکی پھیلا کا بند اس طرح ہے:

                        سچ بولو سچے کہلا              سچ کی سب کو ریس دلا

                        جب اوروں کو راہ بتا       خود رستے پر تم آجا

                                                قوم کو اچھے کام دکھا

                                                نیک بنو نیکی پھیلا

            اس طرح حالی کی بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کے انتخاب پر مبنی یہ کتاب ”بچوں کے حالی“ بچوں کے ادب میں ہم اضافہ تصور کی جائے گی ۔ اس کتاب کی خاص بات یہی ہے کہ اس میں ایک طرف حالی کا بھر پور تعارف ملتا ہے تو دوسری جانب حالی کا تعارف بہ حیثیت بچوںکے شاعر کے طور پر بھی سامنے آتا ہے۔ پھر ڈاکٹر سید تقی عابدی اپنی مخصوص تحقیقی نظر سے حالی کی نظموں کا جائزہ لیتے ہیں اور ان میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے پہلوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ بچوں کی نظموں کا یہ انتخاب ضرور بچوں کے لیے اردو کی نصابی کتابوں کا حصہ ہونا چاہئے ایک ایسے دور میں جب کہ بچے کتاب سے دور ہوتے جارہے ہیں اور ان کی تربیت کا کوئی سامان نظر نہیں آتا بچوں کے لکھی گئی حالی کی یہ نظمیں ان کی تربیت کا سامان کریں گی۔ ان کے ذوق کوتسکین فراہم کریں گی۔ اور حالی کا تعارف بچوں کے شاعر کے طور پر بھی سامنے آئے گا۔اس کتاب کی اشاعت کے لیے مصنف ڈاکٹر سید تقی عابدی قابل مبارکباد ہیں امید کی جاتی ہے کہ وہ اردو ادب کا دامن ایسی ہی اہم کتابوں کی اشاعت کے ذریعے وسیع کرتے جائیں گے۔

           

 


 

No comments:

Post a Comment

Search This Blog