اسباق “ پونے‘ ڈاکٹر محسن جلگانوی نمبر



تبصرہ :رسالہ سہ ماہی” اسباق “ پونے‘ ڈاکٹر محسن جلگانوی نمبر جنوری تا مارچ2013ء

مدیر       :           نذیر فتح پوری

مبصر      :           ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

 

 

            موجودہ دور میں اُردو زبان و ادب کے فروغ اور ادب کے بدلتے رجحانات سے قارئین کو واقف کرانے میں اُردو رسائل اہم رول ادا کر رہے ہیں۔اُردو زبان و ادب سے وابستہ تنظیموں اور اداروں ‘اُردو داں طبقے ‘کالج اور یونیورسٹی اساتذہ اور کتب خانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اُردو کی خدمت کر رہے ان رسائل کی سرپرستی کریں اور ان کی خریداری کو عام کرنے میں تعاون کریں۔ اُردو رسائل کے مدیران کے حوصلے اور عزم کی داد دینی پڑے گی کہ ان نامساعد حالات میں بھی چراغ اُردو کی لو جلائے ہوئے ہیں۔ اور اُردو ادب کے چمن کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ان دنوں اُردو رسائل کی بڑھتی مقبولیت کی ایک اہم وجہہ یہ ہے کہ یہ رسائل ہر دو چار ماہ میں اپنے عہد کے یا ماضی کے کسی مشہور شاعر یا ادیب کے حیات اور کارناموں پر مبنی خاص نمبر نکالتے ہیں۔ یہ خاص نمبر تحقیقی اہمیت کے حامل بھی ہوتے ہیں کہ ان میں ایک شخصیت پر ایک ہی گوشے میں مختلف نقادوں اور ماہرین ادب کی آرا پر مبنی مضامین مل جاتے ہیں۔ اور کسی فنکار کو سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے۔

            ہندوستان میں جو ادبی رسائل ان دنوں مقبول ہیں ان میں ایک رسالہ سہ ماہی” اسباق “ ہے۔ جو نذیر فتح پوری کی ماہرانہ ادارت میں پونہ سے نکلتا ہے۔ اور اس رسالے کا ماہ جنوری تا مارچ 2013ءخاص نمبر جدید لب ولہجہ کے شاعر ڈاکٹر محسن جلگانوی کے نام کیا گیاہے۔ ڈاکٹر محسن جلگانوی ان دنوں روزنامہ اعتماد حیدرآباد کے ادبی صفحہ” اوراق ادب“ کے مدیر ہیں۔ اور اپنی مہارت سے انہوں نے ایک اخبار کے ادبی صفحہ کو اردو کا معیاری ادبی میگزین بنادیا ہے۔ اور ایک ہی صفحہ کو شاعری‘فکشن‘تنقید اور دیگر اصناف سخن کا گلدستہ بنادیا ہے۔ ”اوراق ادب“ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ لوگ دوشنبہ کو شائع ہونے والے اس ادبی صفحہ کا ہفتہ بھر انتظار کرتے ہیں۔ ۔ ڈاکٹر محسن جلگانوی کی شاعری کو بھر پور خراج پیش کرتے ہوئے برصغیر کے نامور نقاد پروفیسر مغنی تبسم نے کہا کہ” محسن جلگانوی اس قبیلے کے شاعر ہیں جن کا سلسلہ ناصر کاظمی کے واسطے سے میر تک پہونچتا ہے۔ اور جن کا کام ہی آتش کدہءدرد کو روشن کرنا ہے۔ کبھی کبھی یہ آگ اپنے وجود کو جلا کر خاکستر کردیتی ہے۔ لیکن فن اسی آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔“ یہی وجہہ ہے کہ نذیر فتح پوری نے فن کی آگ میں تپ کر کندن بن جانے والے شاعرڈاکٹر محسن جلگانوی کو اپنے رسالہ” اسباق سہ ماہی“ سے خراج پیش کرنے کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ انہوں نے اس خاص نمبر میں ڈاکٹر محسن جلگانوی کے گوشے کو ان کی فکر و فن پر لکھے گئے ماہرین ادب کے مضامین سے سجایا ہے۔گوشے کا آغاز ” محسن نامہ “ سے ہوتا ہے جس میں ڈاکٹر محسن جلگانوی کے حیات اور کارناموں کا احاطہ کیا ہے۔ جس سے پتہ چلتاہے کہ ڈاکٹر محسن جلگانوی کا اصلی نام غلام غوث خان اور قلمی نام محسن جلگانوی ہے۔ والد کا نام مولانا عبدالواحد نقشبندی ‘تعلیم ایم اے ایم فل پی ایچ ڈی‘ملازمت آفس سپرنٹنڈنٹ ساتھ سنٹرل ریلوے ہے۔ ڈاکٹر محسن جلگانوی نے شاعری کا آغاز 1960ءکے آس پاس کیا۔ان کے چار شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ جو ” الفاف“1979۔تھوڑا سا آسماں زمیں پر 1994ئ۔آنکھ سچ بولتی ہے2001ئ۔اور ” شاخ صندل2010ئ۔ہیں۔ اسی طرح ان کی دو نثری کتابیں” سکندر آباد کی ادبی دستاویز 1989ءتالیف۔” پس مرگ“ حضرت سلطان نقشبندی کے مجموعہ کلام کی ترتیب و تدوین 1986ءمرتبہ ۔تجزیاتی مطالعے اور مصاحبے 2012ءنثری تصنیف۔ اور جنس درون جاں ۔شعری مجموعہ زیر طباعت ہیں۔ ڈاکٹر محسن جلگانوی کو ان کی تصانیف اور ادبی خدمات پر مہاراشٹرا اردو ساہتیہ اکیڈیمی ایوارڈ ۔ بہار ساہتیہ سنسد ایوارڈ۔ غالب کلچرل اکیڈیمی ایوارڈ‘اردو رائٹرز فورم ایوارڈ مہاراشٹرا۔انجمن ادب اور ساتھ سنٹرل ریلوے ادب ایوارڈ۔ نشان امتیاز ایوارڈ محبوب نگر ۔ سہ ماہی اسباق پونے کا ادبی ایوارڈ۔آندھرا پردیش‘راجستھان‘بہاراور مغربی بنگال اردو اکیڈیمیوں کے ایوارڈ ملے ہیں۔ اس کے علاوہ محسن نامہ سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ ڈاکٹر محسن جلگانوی نے ریاض‘جدہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں شعری اور ادبی محفلوں میں بھی شرکت کی ہے۔ اس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سہ ماہی اسباق کے اس ”ڈاکٹر محسن جلگانوی نمبر“ میں جن مشاہیر کے مضامین شامل کئے گئے ہیں ان میں نذیر فتح پوری ‘ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی‘ڈاکٹر محبوب راہی ‘عبدالاحد ساز‘ ڈاکٹر عقیل ہاشمی‘ڈاکٹر قطب سرشار‘ایم ایف پرویز‘رو ف خلش شامل ہیں۔ ایم ایف پرویز نے اپنے مضمون” اسکول کے زمانے کی کچھ یادیں“ میں ڈاکٹر محسن جلگانوی کے شعری سفر کے آغاز کی یادیں بیان کیں کہ جلگاں کے اینگلو اردو ہائی اسکول سے تین میم ایم ایف پرویز‘مشتاق قاضی اور محسن جلگانوی مشہور ہوئے۔ انہوں نے اسکول کے زمانے میں قلمی رسالہ”گلدستہ “ نکالا تھا جس میں وہ اپنی تخلیقات شامل کرتے تھے۔ جلگاں سے تیس کلو میٹر جام نیر سائیکل پر جا کر آل انڈیا مشاعرے میں شرکت کی۔ اور محسن نے ترنم سے اپنی غزل اس وقت کے نامور شعرا کے سامنے پیش کی۔محسن جلگانوی کے ابتدائی دور کے اشعار سے ہی درد و الم کا اظہار ملتا ہے۔ محسن کہتے ہیں

                        رات کو فٹ پاتھ کے سےنے پہ سوجائے گا               صبح کو اخبار کا بستر اُٹھا لے جائے گا

                        لیکے پھرتی ہے ہر ضرورت پیٹ کی               ان دنوں ہجرت کوئی کرتا نہیں

                        میں منہدم مکان کے ملبے کی چیخ ہوں                      محسن مرے وجود کا پیکر سنبھالنا

ان اشعار کی پیشکشی کے ساتھ ایف ایم پرویز نے لکھا کہ ۔ ” کئی سالوں کے بعد محسن مجھ سے ملنے پونا آئے۔ تب مجھے پہلی بار اس بات کا علم ہوا کہ آں حضرت بھی کسی غم جاناں کے شکار ہوئے تھے۔ اور غم دوراں کے علاوہ غم جاناں نے ہی ان کی شاعری میں گہرائی اور شدت پیدا کی۔ اولین دور میں وہ اسی پرانی ڈھب پر غزلیں کہتے رہے لیکن حیدرآباد پہنچ کر انہوں نے جدیدیت کی طرف رُخ موڑ لیا“۔

            مدیر اسباق نذیر فتح پوری نے اسباق کے گوشہ” ڈاکٹر محسن جلگانوی نمبر“ کے اپنے افتتاحی مضمون میں محسن جلگانوی کے وطن جلگاں سے اپنے تعلق کو واضح کیا اور اس سرزمین سے ابھرنے والے اہم شعرا اور ادیبوں کا تعارف کرایا۔ اور لکھا کہ جب میں محسن صاحب سے متعارف ہوا تو وہ جلگاں چھوڑ کر سکندرآباد منتقل ہوگئے ۔ نذیر فتح پوری نے محسن صاحب کے علمی سفر کے بارے میں لکھا کہ” محسن جلگانوی نے ملازمت سے سبکدوشی کے بعد ادبی محفلوں کی صدارتوں کو ہتھیانے سے گریز کیا اور احباب کے ساتھ منافقانہ رویہ اختیار نہ کرتے ہوئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے سپرد قلم کرکے اپنی ڈاکٹریٹ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرلیا۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی نے اپنے مضمون ” محسن جلگانوی کی غزلیں منفرد شناخت کا آئینہ “ میں ڈاکٹر محسن جلگانوی کی غزل گوئی کے مختلف ابعاد کا ذکر کیا ہے اور مختلف اشعار کے انتخاب سے ان کے کلام میں پائی جانے والی خصوصیات کثیر المعانی ‘تہہ داری ‘اشاریت ‘رمزیت‘ پیکریت برجستگی ‘احساس کی تازگی اور تجربات کے تنوع کو پیش کیا۔

                        ہوا کے ڈر سے دئیے کو بجھائے رکھتا ہے                   وہ اپنے کرب کا چہرہ چھپائے رکھتا ہے

                        رات سورج کی تمازت کو نہیں مانتی              کم نگاہی مری قامت کو نہیں مانتی

ڈاکٹر محبوب راہی نے مضمون“ ڈاکٹر محسن جلگانوی کی بساط تخلیق“ میں محسن صاحب کی تمام تخلیقات کا اجمالی جائزہ پیش کیا۔ اور اردو شعرو ادب میں ان کے مقام کا تعین کیا ہے۔اختر حسن کے حوالے سے انہوں نے لکھاکہ’ محسن جلگانوی کو نئی نسل ‘نئی فکر‘نئی آواز اور نئے لب و لہجے کا شاعر تسلیم کرتے ہوئے ان کی جدیدیت میں نشاط زیست کے پیچیدہ اور پر اسرار مرحلوں سے آشنانئی اورانکی شاعری کے داخلی آہنگ اور علامتی اسلوب کو نئے عہد کے نقاب پوش حقائق کا اظہار کہہ سکتے ہیں۔شعری مجموعہ ” آنکھ سچ بولتی ہے “ کے حوالے سے عبدالاحد ساز نے مضمون” محسن جلگانوی کا آنکھوں بولا سچ“ لکھا ہے۔ جس میں انہوں نے محسن صاحب کی نظموں کا فکری و فنی اعتبار سے جائزہ پیش کیا ہے۔عبدالاحد ساز لکھتے ہیں“ محسن جلگانوی کی موضوعاتی نظموں میں ترقی پسندانہ لہجہ اور بیانیہ نمایاں طور پر محسوس ہوتا ہے۔ ان کے یہاں کسی نظریے یا ازم کا پرچار نہیں۔۔ ان نظموں میں کہیں کہیں سردار جعفری کا بیانیہ اور کہیں ساحر کی منطقی زاویہ آفرینی کا اثر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر عقیل ہاشمی نے بھی اپنا مضمون محسن صاحب کے شعری مجموعے” آنکھ سچ بولتی ہے “ کے فنی محاسن سے متعلق لکھا ہے۔ وہ ڈاکٹر محسن جلگانوی کے شعری رویے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ”آنکھ سچ بولتی ہے کا بالاستعیاب مطالعہ اس بات کی گواہی دے گا کہ ڈاکٹر محسن جلگانوی بیسویں صدی کی ساتویں دہائی میں ابھرنے والے ان شاعروں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کو حالات کے سمندر میں موج بلا سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے قابل بنایا۔ انہوں نے جدلیاتی نظام میں صداقتوں کا ساتھ دیا۔خارجی عوامل پر نظر رکھی۔ فرد و ذات کی آفاقی حیثیت کو سمجھنے کی کوشش کی۔۔ انہوں نے غزل کے توسط سے بہت کچھ کہا لیکن محظ غزل ہی پراکتفا نہیں کیا ان کے ہاں پابند اور معریٰ نظموں کے علاوہ ہندی کویتائیں بھی ایک کیفیت اور حسن کی تخلیق کرتی ہیں۔تلگو اور اردو ادب کی کڑیاں ملانے میں مصروف اردو کے نامور شاعر اور ادیب ڈاکٹر قطب سرشار نے اپنے مضمون میں محسن صاحب کی شاعری کی خصوصیات کو ان کے کلام کے انتخاب کے ساتھ پیش کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر محسن جلگانوی کی شاعری کو نئی صدی کاآدمی نامہ قرار دیتے ہوئے لکھا کہ” یہ شاعری اس داخلی کرب کی نمائندہ ہے جو خارجی خباثتوں کی پیداوار ہے۔ ۔اس میںایک ایسا چھناکا ہے جو اعتماد اور امیدوں کے ٹوٹ جانے سے پیدا ہوتا ہے۔

            حیدرآباد کے ایک صاحب طرز شاعر روف خلش نے مضمون” محسن جلگانوی کی نظموں کا صوتیاتی آہنگ اور موضوعاتی تنوع۔ ایک مطالعہ “ لکھا ہے۔ جس میں ڈاکٹر محسن جلگانوی کے دوسرے شعری مجموعے” تھوڑا سا آسماں زمیں پر“ کے حوالے سے ان کے شعری آہنگ کو مثالوں کا ساتھ پیش کیا ہے۔ اور ان کے فن کاتجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ” ڈاکٹر محسن جلگانوی کا شعری رویہ بالکلیہ محسوساتی رویہ ہے۔ جس کو وہ کبھی بصری پیکروں کے ذریعے کبھی لمسی پیکروں کے ذریعے ظاہر کرتا ہے۔ تشریح کی خاطر وہ کبھی بیان یا وضاحت کی سطح پر نہیں اترتا۔ اس نے اپنا ایک مخصوص استعاراتی نظام ترتیب دیا ہے۔ جس میں الفاظ اور ترکیبیں کبھی استعارہ بالکنایہ ‘کبھی استعارہ تمثیلیہ کے طور پر بار بار اس کی نظموں میں در آتے ہیں۔ ۔۔ محسن جلگانوی کا اسلوب اپنے دیگر ہم عصر شاعروں کے مقابلے میں قدرے جداگانہ ہے ۔یہ بلا شبہ اس کے فن کی اپنی اثر پذیری کی بات ہے جو اہل ذوق کے لئے تسکینیت کا سامان فراہم کرتی ہے۔

            سہ ماہی اسباق پونہ کے اس ڈاکٹر محسن جلگانوی خاص نمبر میں مدیر رسالہ نذیر فتح پوری نے ڈاکٹر محسن جلگانوی کے فن کے بارے میں مشاہیر کی آراءکو بھی شامل کیا جن میں اختر حسن‘ڈاکٹر مغنی تبسم‘شاذ تمکنت‘ڈاکٹر عالم خوندمیری‘ظفر مراد آبادی‘ڈاکٹر سیفی پریمی اور ابو سعادت جلیلی لاہور پاکستان کی آراءشامل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ڈاکٹر محسن جلگانوی کے فکر و فن پر قدیم و جدید دور کے ماہرین ادب نے اپنی رائے پیش کی ہے۔ جب کسی فن کار کے بارے میں تعریفی اور توصیفی دعوے کئے جاتے ہیں تو قاری ان دعوں کا اثبات بھی چاہتا ہے۔ اور اس کااچھا طریقہ یہ ہے کہ فن کار کی تخلیقات کو قاری کے سامنے پیش کردیا جائے تاکہ وہ خود فیصلہ کر لے کے فن کار کے بارے میں پیش کی گئی آرا کس قدر صحیح ہے اور ایک منصف کی طرح نذیر فتح پوری نے اپنے رسالے کے اس خاص نمبر میں ڈاکٹر محسن جلگانوی کے کلام سے ابتدا میں اپنی توشیحی نظم جس کے ہر شعر کا آغاز تخلیق کار کے نام کے الفاظ سے ہوتا ہے کو شامل کیا۔ اس کے بعد محسن جلگانوی کی کہی گئی حمد‘نعت اور غزلوں کا انتخاب پیش کیا ہے۔ محسن کا یہ شعر بھی ان کے فن کا عکاس ہے کہ

                        وہ سلیقہ سے مری فصل ہنر کاٹتا ہے             بخش دیتا ہے مرے ہاتھ تو سر کاٹتا ہے

اردو والوں میں آج کل تعارف کے دوران یہ جملہ سنا جانے لگا ہے کہ یہ میرے پیر بھائی ہیں۔ اس جملے کے حوالے سے میں کہہ دوں کہ ڈاکٹر محسن جلگانوی بھی میرے پیر بھائی ہیں۔ کیوں کہ انہوں نے اور میں نے یونیورسٹی آف حیدرآباد سے پروفیسر محمد انور الدین صاحب کے زیر نگرانی اردو میں پی ایچ ڈی کیا ہے۔ اور ایک ہی کانوکیشن تقریب میں ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔بہر حال میں نے اپنے پیر بھائی جناب ڈاکٹر محسن جلگانوی صاحب کے فکر وفن کو اجاگر کرتے سہ ماہی رسالہ اسباق کے اس خاص نمبر کا تعارف و تبصرہ پیش کیا ہے۔ اس خاص نمبر میں محسن صاحب کی صحافتی خدمات پر بھی مضمون شامل ہوتا تو سونے پہ سہاگہ ہوتا۔ امید کہ رسالے کے مدیر آئیندہ کسی اشاعت میں اس کمی کو پورا کردیں گے۔ یہ رسالہ محسن صاحب جیسے محسن اردو پر تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے ضرور ایک حوالے کی کتاب ہے۔ اور محسن صاحب کے چاہنے والوں کے لئے ایک جوہر نایاب۔ اسباق کے اس شمارے میں گوشہ پرکاش فکری کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی مضامین‘ شعری انتخاب ‘کتابوں پر تبصرے ‘مکتوبات اور عالمی خبر نامہ بھی شامل ہیں جو مدیر اسباق کی فکر و جستجو کو ظاہر کرتے ہیں۔ رسالے کا اداریہ اردو کو دوسری سرکاری زبان بنانے سے متعلق مدیر کے بے لاگ حقائق کو اجاگر کرتاہے۔ قارئین اسباق کے اس خصوصی نمبر کے علاوہ رسالے کی مستقل خریداری کے لئے مدیر اسباق سے پتہ:سائرہ منزل230/B/102ومان درشن سنجے پارک لوہگاں روڈ پونے411032مہاراشٹرا فون:0091-9822516338اور ای میل:nazir_fatehpuri2000@yahoo.comپر رابطہ پیدا کرسکتے ہیں۔ 

کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو-راسیہ نعیم ہاشمی

 


کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو (تبصرہ)


مصنفہ: راسیہ نعیم ہاشمی


مبصر: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

 

            انسان کی زندگی میں شادی ایک فطری ضرورت اور اہم سماجی ذمہ داری کی تکمیل ہے۔ ہر نارمل انسان شادی شدہ زندگی گذارتا ہے۔ اور خاندانی زندگی گذارتے ہوئے دنیاکے نظام کو آگے بڑھاتا ہے۔ ابتدائے آفرینش سے ہی دنیا کے مختلف قبائل اور مہذب سماج میں شادی کے مختلف طریقے رائج ہیں جن میں مذہبی تعلیمات سے روشنی حاصل کی گئی ہے۔ بدلتے وقت اور دنیا کی تیز رفتار ترقی نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں کو متاثر کیا ہے وہیں مرد اور عورت کے درمیان طے پائے جانے والے اس مقدس رشتے کے تقدس کو پامال کرنے کی مثالیں بڑھتی جارہی ہیں۔ جہیز کے نام پر لڑکیوں پر مظالم‘ عورتوں کی عصمت ریزی کے بڑھتے واقعات‘ شادی میں رکاوٹ کے سبب نوجوانوں میں بڑھتی بے راہ روی اور بڑھتی ہوئی اخلاقی برائیوں جیسی سنگین وجوہات کے پیچھے شادی جیسے ادارے کو غلط سمجھنا ہے۔ شادی کے بارے میں یوں تو لطیفے مشہور ہیں کہ شادی ایک ایسا قلعہ ہے جس میں اندر والے باہر اور باہر والے اندر جانا چاہتے ہیں اور ےہ کہ جس کی شادی نہیں ہوئی اسے یہ فکر رہتی ہے کہ اس کی شادی کب ہوگی اور جس کی شادی ہوچکی ہے وہ پچھتا رہا ہے کہ اس کی شادی کیوں ہوئی وغیرہ۔ لیکن مجموعی طور پر شادی کے بارے میں مغرب کی بے راہ روی کو چھوڑتے ہوئے خود مشرقی اور ہندوستانی سماج میں شادی دولت مند اوسط اور غریب طبقے کے والدین اور نوجوانوں کے لئے ان دنوں ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ شادی کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں‘ وجوہات مسائل اور ان کے ممکنہ حل کو پیش کرتی ہوئی اردو میں ایک اہم معلوماتی اور مفید کتاب ” کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو“ کے عنوان سے شائع ہوئی ہے اور اس کتاب کی مصنفہ حیدرآباد کی ایک مشہور خاتون صحافی راسیہ نعیم ہاشمی ہیں۔ جو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی اسکالر ہیں اور روزنامہ سیاست کی ویب سائٹ پر خبروں کی پیشکشی کے کام سے وابستہ ہیں۔ وہ ارد وکی ایک ابھرتی اور مقبول کالم نگار بھی ہیں۔ ان کے مزاحیہ اور سنجیدہ مضامین روزنامہ منصف اور سیاست میں مستقل شائع ہوتے رہتے ہیں۔ راسیہ نعیم ہاشمی اردو کی ان اسکالرس میں شمار ہوتی ہیں جنہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم سی جے کیا اور اردو میں سماجی صحافت سے وابستہ رہیں۔ راسیہ نعیم ہاشمی کی اس سے قبل دو تصانیف ” بتیسی“ مزاحیہ مضامین کا مجموعہ 2005ءاور ” تین سو چونسٹھ دن مردوں کے ایک دن خواتین کا“ مضامین کا مجموعہ 2012ءشائع ہو کر مقبول ہوچکی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ” کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو“ دراصل ان کے ایم فل کے تحقیقی مقالے کی بعد ترمیم و اضافہ کتابی شکل ہے۔ انہوں نے یہ مقالہ یونیورسٹی کے شعبے سماجی اخراجیت و شمولیت پالیسی کے تحت لکھا تھا جس میں دنیا بھر میں شادی کی رسومات اور قوانین ‘ہندوستان میں مختلف اقوام میں شادی کے احوال اور مسلم معاشرے میں شادی کی بدلتی صورتحال اور شادی کے لئے موجودہ دور میں پیش آنے والی رکاوٹوں اور مسائل کو اعداد و شمار اور تجزیے کے ساتھ پیش کیا گیا اور حیدرآباد میں رشتے جوڑنے کے پروگرام دو بدو کے بشمول دیگر عوامل پیش کرتے ہوئے شادی میں آسانی اور سماج کے ایک اہم مسئلے کے حل کی یکسوئی کی کوشش کی گئی ہے۔ راسیہ نعیم ہاشمی نے اپنے تحقیقی مقالے کو کتابی شکل دیتے ہوئے اس کے عنوان ” کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حنائی ہو“ سے ہی لوگوں کی توجہ اس اہم مسئلہ کی جانب مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ کتاب کا پیش لفظ اردو یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم نسوان کی پروفیسر ڈاکٹر آمنہ تحسین نے لکھا ہے۔ وقت کی اہم ضرورت سمجھے جانے والے اس موضوع پر تحقیقی کتاب پیش کرنے کے لئے فاضل مصنفہ کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر آمنہ تحسین لکھتی ہیں کہ” راسیہ نعیم ہاشمی دلی مبارک باد کی مستحق ہیں کہ انہوں ے ایک اہم موضوع کو تحقیق کے لئے منتخب کیا اور نہایت معروضی و جامع انداز میں اس مسئلہ کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی اور اپنی تحقیق کے حاصل شدہ نتائج کو مسلم معاشرے کے روبرو پیش کیا۔۔ اب ےہ مسلم معاشرے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس آئینہ میں نظر آنے والی مسلم لڑکیوں اور خواتین کی بگڑی تصویر کی بحالی اور درستگی کی طرف کس طرح توجہ دیتے ہیں۔“( ص۔4)

            راسیہ نعیم ہاشمی نے آغاز سخن کے عنوان سے کتاب میں پیش کردہ تحقیقی مواد کا تعارف پیش کیا اور لکھا کہ اس موضوع پر کام کرنے کے لئے تحقیق کی ایک قسم سوالنامہ اور ان کا تجزیہ کو استعمال کیا گیا ہے۔ اور ہندوستان میں اور خاص طور سے مسلم معاشرے میں شادی میں لڑکی کے انتخاب کے معیارات‘جہیز اور دیگر امور سے متعلق سماج سے تعلق رکھنے والے 200افراد سے سوالنامے کے جوابات حاصل کئے گئے اور انہیں بعد تجزیہ نتائج کے طور پر پیش کیا گیا۔ شادی کا انتظار کرتی مشرقی سماج کی لڑکیوں کے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے راسیہ نعیم ہاشمی لکھتی ہیں۔

            ” شعور کی آگہی کی منزل پر قدم رکھنے کے بعد ہی سے لڑکی خوابوں کی منڈیروں پر ارمانوں کے چراغ جلائے ایک ایسے ہم سفر کا انتظار شروع کردیتی ہے جو اس کے خوابوں کو حقیقت کا روپ دے اور اس کے آرزں کی تکمیل کر سکے۔ لیکن اس انتظار کے نتیجے میں اسے وصل صنم کے بدلے بار بار مسترد کئے جانے ‘لین دین اور جہیز کی جانگ جیسی سوغاتیں ملنے لگتی ہیں اور یہ انتظار طویل تر ہوجائے یہاں تک کہ کالی گھٹاں کے پیچھے سے چاندی کے تار نظر آنے لگیں تو

            ذرا تو سوچئے اس دل کا کیا حال ہوگا                        تلاش گل میں جو پتھر کی چوٹ کھا جائے( ص۔ ۷)

کتاب کے ابتدائی باب میں ” شادی مختلف ادوار اور اقوام میں“ کے عنوان سے دنیا کے مختلف علاقوں اور قبائل میں شادی سے متعلق معلومات دی گئی ہیں۔ خاص طور سے ہندوستان میں بچپن کی شادی اور آپسی رشتہ داریوں میں شادیوں سے متعلق مفید معلومات دی گئی ہیں۔اور مختلف علاقوں میں رشتے کے انتحاب کے پیمانوں کو اعداد شمار کے ذریعے واضح کیا گیا ہے۔کتاب کے دوسرے باب” شادی حیدرآباد ی مسلم معاشرے“ کے تحت حیدرآباد میں فی زمانہ رشتے کے انتخاب سے لے کر شادی تک ہونے والے مراحل کا ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح دکھاوے میں ڈوبے معاشرے میں لڑکی کو دیکھا پرکھا جاتا ہے اور اس کے انتخاب سے قبل اسے کس قدر ذہنی کرب سے گذارا جاتا ہے۔ حیدرآباد جہاں اپنی گنگا جمنی تہذیب ‘اردو زبان کی مٹھاس اور دیگر اچھی باتوں کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے وہیں گذشتہ دو تین دہائیوں سے شادی بیاہ کے معاملے میں اسراف اور دکھاوے کے لئے بدنام ہوتا جارہا ہے۔ ضرورت رشتہ کے ایک اشتہار کی جانب راسیہ نعیم ہاشمی نے توجہ دلائی جس میں لکھا گیا تھا کہ ” کالی یا سانولی لڑکی کے والدین زحمت نہ کریں“۔لڑکیوں کے انتخاب کے طریقہ کار کے بارے میں راسیہ نعیم ہاشمی لکھتی ہیں کہ” لڑکیوں کی بھیڑ بکریوں کی طرح جانچ کرکے کھانا پینا اور پھر اس طرح غائب ہوجانا جیسے گدھے کے سر سے سینگ‘روز کا معمول بن گیا ہے۔ لڑکی والے بے چارے آس کی شمعیں جلائے اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ شائد کوئی دوسری بار بھی ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹادے۔ اس طرح لڑکی دیکھنے والے لڑکی کے معصوم دل کو روندتے ہوئے اس کے جذبات سے کھیلتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔اور یہ احساس بھی انہیں نہیں ہوتا کہ انہوں نے خدا کی تخلیق کی ناقدری کے ساتھ ساتھ اس کے دل پر ایسی کاری ضرب لگائی ہے جو کہ مستقبل بعید میں اسے ذہنی مریضہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑے گی“( ص ۔50)

            کتاب کے اگلے باب”لڑکیوں کی شادی کی نسبت پر اثر انداز ہونے والے عوامل “ میں راسیہ نعیم ہاشمی نے لکھا کہ لڑکی کی شادی کی موزوں عمر18سے 25سال ہے۔ اور حاصل کردہ اعداد شمار میں 40فیصد لڑکیاں جن کی شادی ہوئی ہے وہ اسی عمر کے گروپ سے تعلق رکھتی ہیں۔ 28سال کے بعد لڑکی کی شادی کے لئے اسے سمجھوتے کا ذکر کیا گیا کہ والدین لڑکے کے بارے میں سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور کسی طرح عمر پار کرجانے والی اپنی لڑکی کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ راسیہ ہاشمی نے یہ نہیں لکھا کہ کن وجوہات کی بناءلڑکی شادی کی عمر پار کرجانے کے باجود بن بیاہی رہ جاتی ہے جب کہ خوبصورتی کے دنیاوی پیمانے میں کمی‘غربت یا کوئی جسمانی معذوری لڑکی کی شادی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ آگے راسیہ ہاشمی نے لکھا کے کثیر العیال والدین کے لئے بھی اپنے بچوں کی شادی مسئلہ بنتی ہے۔اعداد شمارے کے تجزیے سے انہوں نے واضح کیا کہ جس گھر میں ایک سے ذائد لڑکیاں ہیں وہاں شادی کے مسائل ہیں۔شادی کے مذہبی‘فطری یا سماجی فریضہ کے سوال کے جواب میں ذیادہ تر لوگوں نے اسے مذہبی اور سماجی کہا ہے۔ جو بہت حد درست ہے۔22فیصد نے فطری اور13فیصد نے اخلاقی سہارا قرار دیا ہے۔لڑکے کے اتنخاب کے پیمانے میں راسیہ نعیم ہاشمی نے جو اعداد شمار پیش کئے ہیں ان میں معاشی استحکام‘تعلیم اور اخلاق کو لوگوں نے ترجیح دی ہے۔ جو موجودہ معاشرے کی عکاسی ہے۔اس سروے میں لڑکی اور والدین دونوں کی پسند کو پیش کیا گیا ہے۔موزوں رشتے کی تلاش میں رکاوٹ کے عوامل بیان کرتے ہوئے راسیہ نعیم ہاشمی نے لکھا کہ لوگوں کے معیارات اونچے اور خواب و خیال کے ہوتے ہیں اور انہیں حقیقت میں بدلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ جو ہو نہیں پاتا۔ اسی لئے رشتوں میں تاخیر ہورہی ہے۔رشتوں کے لئے مناسب ذرائع اختیار کرنے کے سروے میں دکھایا گیا کہ 50فیصد سے ذائد لوگ آج بھی رشتے داروں اور دوست احباب کی رہبری پسند کرتے ہیں جب کہ ضرورت رشتہ کے اشتہار ‘پیامات کے دفاتر اور انٹر نیٹ وغیرہ بھی لوگوں کے لئے کچھ حد تک معاون ثابت ہورہے ہیں۔شادی طے ہوجانے کے بعد جہیز کا مطالبہ اور معیاری شادی بھی مسلم سماج کا بڑا مسئلہ ہے۔ 70فیصد لوگ جہیز کو غلط مانتے ہیں لیکن دینے کے لئے مجبور ہیں کہ ان کی بیٹی کی شادی کا معاملہ ہے۔راسیہ نعیم ہاشمی نے لکھا کہ خوف خدا نہ ہونا اور سماج میں اپنے رتبے کو اونچا دکھانے کی آرزو جہیز اور اسراف کی لعنت کو بڑھاوا دے رہی ہے۔کتاب کے اگلے باب شادی میں تاخیر اور اس کے اثرات میں مصنفہ نے کیس ہسٹری کے طور پر کئی لڑکیوں کی مثالیں پیش کیں جو مختلف غلط وجوہات کی بنا شادی نہیں کر سکیں اور ذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔ دوبدو پروگرام کے عنوان سے راسیہ نعیم ہاشمی نے ادارہ سیاست اور مائنارٹیز ڈیویلپمنٹ فورم کی جانب سے چلائے جانے والے رشتہ جوڑ پروگراموں کی اہمیت واضح کی جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔2008ءمیں شروع ہونے والے اس اختراعی رشتہ جوڑ پروگرام کے اب تک 30مرحلے ہوچکے ہیں۔ اس پروگرام کی اہم خوبی ےہ ہے کہ ایک ہی پلیٹ فارم پر والدین کو بغیر خرچ کے مناسب رشتے مل جاتے ہیں اور پروگرام میں اسراف اور جہیز کی لعنت سے پرہیز کرنے کی تاکید سے شادیوں میں آسانی بھی ہورہی ہے جس کے لئے مدیر سیاست جناب زاہد علی خان صاحب اور ان کے احباب قابل مبارک باد ہیں۔کتاب کے اختتام پر راسیہ نعیم ہاشمی نے مسئلے کے حل کے طور پر سماج کے سرکردہ افراد‘علمائے کرام اور دیگر معززین سے گذارش کی ہے کہ وہ شادی بیاہ کو آسان بنانے کے لئے کونسلنگ مراکز قائم کریں اور لڑکیوں کو سماج میں ان کا مستحق مقام دیتے ہوئے شادی کے ادرارے کو مستحکم بنائیں ورنہ انہوں نے متنبہ کیا کہ شادی میں رکاوٹ سے سماج بے شمار برائیوں کا مرکز بن جائے گا جس سے زندگی درہم برہم ہوگی۔ اس طرح راسیہ نعیم ہاشمی نے اپنی کتاب”کبھی تورنگ مرے ہاتھا کا حنائی ہو“ کو جذباتی انداز میں پیش کیا ہے۔ کتاب میں انگریزی اور اردو کی بے شمار کتابوں کے حوالے دئے گئے ہیں اور اردو قارئین اور مسلم معاشرے کو پیش نظر رکھ کر مواد پیش کیا گیا ہے۔ ارد و میں تفتیشی جرنلزم ‘نسوانی تحریک کی آواز اور تحقیق کے نئے اندازکے لئے یہ کتاب اچھی مثال قرار دی جاسکتی ہے اسی کے ساتھ ساتھ تمام رشتوں کے مراکز اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کے کتاب خانے میں اس کتاب کو رکھا جانا چاہئے اور اپنے بچوں کے رشتوں کے لئے متلاشی والدین اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بھی اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ دیدہ زیب ٹائٹل ‘ خوبصورت انداز پیشکش کی حامل اردو اکیڈیمی کے تعاون سے شائع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 200روپے رکھی گئی ہے۔ ہدی بک ڈپو نے کتاب کو شائع کیا ہے جسے مصنفہ سے ان کے مکان نمبر16-10-274/9ریس کورس اولڈ ملک پیٹ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

 

 


مجھے کچھ کہنا ہے - شیخ احمد ضیاء



 

            نام کتاب       :        مجھے کچھ کہنا ہے

            مصنف   :           شیخ احمد ضیاء

            مبصر                  :           ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

           

            شمالی تلنگانہ کے ضلع نظام آباد کا ایک اہم ٹان بودھن ہے جس سے متصل علاقہ شکر نگر ایشاءکی اپنے وقت کی مشہور زمانہ نظام شوگر فیکٹری کے لیے مشہور رہا ہے۔ سرزمین بودھن زمانہ قدیم سے اردو زبان و ادب کی آبیاری کے لیے جانی جاتی ہے۔ بودھن سے کئی نامور شعراءاور ادیبوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت بنائی ہے ان میں ایک نامور ادیب‘شاعر‘مزاح نگار اور انشاءپرداز جناب شیخ احمد ضیاءصاحب ہیں جوطنزیہ اور مزاحیہ مضامین کے مجموعے”مجھے کچھ کہنا ہے“ کے ساتھ ایک مرتبہ پھر اردو ادب کی دنیا میں ہلچل مچانے آئے ہیں۔ اس سے قبل شیخ احمد ضیاءکی تصانیف ”زیر زبر پیش“ 2005‘” افکار تازہ“2009‘ اور”وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں“2016 مقبول ہوچکی ہیں۔شیخ احمد ضیاءاچھے سنجیدہ اور مزاحیہ شاعر بھی ہیں اور تلنگانہ میں سبھی مشاعروں میں عوام وخواص میں مقبول ہیں۔ شیخ احمد ضیاءزندہ دل شخص ہیں۔ لوگوں سے ہنس بول کر ملتے ہیں۔ انہوں نے زندگی کو قریب سے دیکھا اور اپنے تجربات کو جہاں شاعری میں پیش کیا وہیں مختلف عنوانات پر طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے ذریعے اردو کے قارئین تک پہونچایا ہے۔ اکیسویں صدی گلوبل ولیج کے دعوے کے باوجود فرد کی تنہائی کی صدی ہے۔ آج انٹرنیٹ کی بدولت دنیا ہمارے فون کے اسکرین پر سمٹ گئی ہے لیکن سوشل میڈیا کے شور کے درمیان انسان ایک چبھتی ہوئی خاموشی و تنہائی کا شکار ہے۔ شخصیت سازی کے ایک ماہر کا یہ کہنا ہے کہ We are the most connected people with most disconnected society.یعنی ہم میڈیا کے ذریعے تو دنیا بھر سے جڑے ہیں لیکن سماجی طور پر ایک دوسرے سے ہمارا رابطہ منقطع ہے۔ آج ایک گھر کی چہاردیواری میں باپ بچوں سے ‘ماں شوہر اور بیٹے بیٹیوں سے بات کرنے کے لیے ترستی ہے۔ بوڑھے لوگوں کا الگ المیہ ہے بڑھاپا ان کے لیے ایک عذاب جان بن گیا ہے اور وہ اپنی اولاد کے سہارے کے لیے بے چین ہے۔ زندگی اپنی تمام تر رونقوں اور رعنائیوں کے باوجود بے مزہ ہے اس افراتفری اور مادہ پرستی کے ماحول میں ایک طنزیہ و مزاحیہ ادیب بہت بڑا سماجی فریضہ انجام دے رہا ہے کہ وہ اپنے اطراف کے ماحول کے کرب کو دیکھتا ہے اور اس سے طنز و مزاح کے پہلو نکالتا ہے۔ یہ کام شیخ احمد ضیاءاپنے طنزیہ و مزاحیہ مضامین سے بہت خوب کر رہے ہیں۔ شیخ احمد ضیاءصاحب کی تحریروں کی اسی خوبی کو مد نظر رکھ کر نظام آباد کے مشہور سرکاری ڈگری کالج گری راج کالج کے شعبہ اردو کے اردو نصاب میں ان کا ایک طنزیہ و اصلاحی افسانہ ”اولڈ ایج ہوم “شامل کیا گیا ہے۔اپنے سابقہ مضامین کے مجموعوں کی طرح شیخ احمد ضیاءکی اس تصنیف”مجھے کچھ کہنا ہے“ میں شامل سبھی مضامین عہد حاضر کی ہماری سماجی زندگی کی ناہمواریوں کو ظاہر کرتے ہیں جس میں شیخ احمد ضیاءنے کہیں طنزکے کچوکے لگائے ہیں تو کہیں مزاح کی پھلجھڑی چھوڑی ہے۔ طنز دل کو چبھتا ہے اور ایک نشتر کی طرح اصلاح کا کام کرتا ہے جب کہ مزاح زندگی کی ناہمواری کو خوشگوار انداز میں پیش کرنے اور اس سے اصلاح کا پہلو اخذ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

            زیر نظر تصنیف کا پہلا شگفتہ مضمون”گھر دامادی“ ہے۔ اس مضمون میں ایک ایسے نوجوان کا فسانہ یا یوں کہیے برا انجام بیان کیا گیا ہے جو گھر داماد بننے کا خواہش مند تھا۔ اس کی خواہش تو پوری ہوتی ہے لیکن شادی کے دوسرے دن سے ہی اس کی تیز و طرار بیوی اور خسر اس سے جس طرح گھر کے کام کاج لیتے ہیںکہ وہ گھبرا کر گھر دامادی کو ترک کر فرار ہوجاتا ہے اور نوجوانوں کو مشورہ دیتا ہے کہ ”میاںہوسکے تو دھوبی کے گدھے بن جا مگر کبھی گھر داماد نہ بننا“۔ اس مضمون میں شیخ احمد ضیاءنے دلچسپ اسلوب نگارش کے ساتھ گھر دامادی کی خواہش اور اس کے انجام کو اجاگر کیا ہے۔کتاب میں شامل اگلے مضمون کا عنوان”گھر کی مرغی دال برابر“ میںموجودہ دور کے مشاعروں کے کلچر پر طنز کیا گیا ہے جہاں ناشاعر قسم کے گویوں اور شاعرات کو جو باہر سے آتے ہیں انہیں اسٹیج پر اہمیت دی جاتی ہے اور مقامی شاعر جو معیاری ہوتا ہے اسے گھر کی مرغی دال برابر سمجھ کر اسے نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ جس سے مقامی شاعر اپنی تضحیک محسوس کرتے ہیں۔ اس مضمون کے ذریعے شیخ احمد ضیاءنے اردو مشاعروں کے منتظمین کو خبردار کیا ہے کہ وہ مشاعروں کے نام پر مجرے بازی ختم کریں اور کسی بھی مشاعرے میں بیرونی شعرا کے ساتھ ساتھ مقامی شعراءکو بھی عزت سے مشاعروں میں شرکت کا موقع فراہم کریں۔مضمون ”گھر گھر ثانیہ“ میں شیخ احمد ضیاءنے مچھر بیاٹ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس بیاٹ کو مچھروں کو بھگانے کے لیے استعمال کرتے ہوئے کہیں گھریلو خواتین ثانیہ مرزا نہ بن جائیں۔مضمون”وہ پھر ہمیں یاد کرنے لگے ہیں“ میں شیخ احمد ضیاءنے موجودہ دور کے جلسوں میں صدارت کے خواہش مندوں کی گرتی علمی لیاقت پر طنز کیا کہ کیسے مولانا آزاد کی یاد میں رکھے گئے جلسے میں کسی نے مولانا آزاد کو ہندوستان کے میزائل میان عبدالکلام سے ملا دیا اور کیسے صدر نے کہا کہ مولانا آزاد مسجد کے امام تھے۔ اس مضمون میں ہمارے انگوٹھا چھاپ سیاست دانوں پر طنز کیا گیا کہ وہ کسی موضوعاتی جلسے میں کرسی صدارت پر تو براجمان ہوتے ہیں لیکن انہیں تقریر کرتے وقت پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔شیخ احمد ضیاءکا ایک دلچسپ مضمون”جامع سروے اور شاعر “ ہے۔ اس مضمون میںریاست تلنگانہ میں ہوئے ایک جامع گھر گھر سروے کے دوران ایک شاعر سے پوچھے گئے سوالات اور اس کے دلچسپ شاعرانہ جوابات کو اشعار کی لڑی کے ذریعے پیش کیا گیا۔مضمون کا ایک حصہ ملاحظہ ہو

            ” جب شمار کنندہ نے ان کی ازدواجی زندگی خصوصاً ان کی اہلیہ کے بارے میں سوال کیا تب انہوں نے کہا

            جسے سب لوگ ہٹلر بولتے ہیں        اسے ہم نصف بہتر بولتے ہیں

            اجی ہم کیا ہماری حیثیت کیا             یہاں گونگے بھی فرفر بولتے ہیں

بچوں کی تعداد کے بارے میں جب سوال کیا گیا تب جواب ملا

            سب سے چھوٹا چھ مہینے کا   اس کے اوپر ہیں گیارہ (مجھے کچھ کہنا ہے)

            اس طرح اس مضمون میں شیخ احمد ضیاءنے مختلف مقبول اشعار کو برمحل استعمال کرتے ہوئے مزاح پیدا کیا ہے۔مضمون”غالب وظیفہ خوار ہوا“ میں موجودہ دور میں وظیفہ پر سبکدوش ہونے والے سرکاری ملازمین کی بعد وظیفہ مسجد کی صدارت یا کسی تنظیم کی رکنیت اور سماجی خدمات میں وقت گزارنے کا ذکر کیا گیا ہے۔مضامین مشاعرہ‘کنوینر مشاعرہ اور صدر مشاعرہ میں اردو مشاعروں کے انتظام و انصرام میں کام کرنے والوں کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ شیخ احمد ضیاءچونکہ پابندی سے مقامی اور ریاستی و قومی مشاعروں میں شرکت کرتے رہتے ہیں اس لیے انہیں مشاعروں میں مختلف قسم کے لوگوں سے ملاقات کا تجربہ ہے اسی بنیاد پر انہوں نے مشاعروں کے کرداروں کے طور پر صدر مشاعرہ‘ناظم مشاعرہ اور سامعین کے رویوں کو مزاحیہ اور طنزیہ انداز میں بیان کیا ہے۔ داد کے بھوکے شاعروں کے بارے میں شیخ احمد ضیاءنے درست لکھا کہ ”اگر شاعر تین دن کا بھوکا بھی ہو اور سامعین اسے اپنی واہ واہ سے نواز رہے ہوں تب یہ شاعر مزید تین دن بھوکا رہنا بھی گوارا کرلے اور غزلوں پر غزلیں سناتا چلا جائے گا“۔کنوینر مشاعرہ کے عنوان سے شیخ احمد ضیاءنے مشاعروں کے انتظام میں اس طرح کی شخصیات کے کردار کو اجاگرکیا ہے کہ کیسے یہ لوگ شاعروں سے اچھا یا برا رویہ اختیا ر کرتے ہیں۔مضمون ”انٹرویوبرائے الیکشن“ میں ایک ملازمت کے متلاشی ایک نوجوان کے ایک سیاسی پارٹی میں دئے گئے انٹرویو کا طنزشامل ہے کہ کس طرح پارٹی والے نوجوان سے لڑائی جھگڑے‘قتل و غارت گری اور دھوکے بازی میں مہارت کے بارے میں پوچھتے ہیں جب نوجوان نفی میں جواب دیتا ہے تو اسے دھتکار دیا جاتا ہے کہ جب اس کے اندر یہ صفات ہی نہیں تو وہ کیسے ایک اچھا سیاست دان بن سکتا ہے۔ اس طرح شیخ احمد ضیاءنے ہمارے سیاسی نظام کا پردہ فاش کیا کہ موجودہ سیاسی جماعتوں میں کوئی بھی لیڈر اس وقت تک لیڈر نہیں بن سکتا جب تک اس کے اندر تخریب کاری کی صفات نہ ہوں۔مضمون”کیا خوب اثاثہ ہے“ میںعام آدمی کے روٹی کپڑے اور مکان کے چکر اور سیاست دانوں کے ہاں بڑھتی دولت کی وجوہات کو اجاگر کیا گیا ہے۔

            طنزیہ و مزاحیہ مضامین کے مجموعے”مجھے کچھ کہنا ہے “ میں شامل دیگر مضامین کے عنوانات ”شوہر بیوی اور عید‘عادت سے مجبور‘لائسنس یافتہ‘مری تلاش میں ہے‘جلسہ استقبال رمضان‘زباں شیریں ملک گیری‘رمضان کی رونقیں‘بات نکلی جو کبابوں کی تو سب ایک ہوئے‘زیر یہ اچھا نہیںہے زبر یہ اچھا نہیں‘سحری ان کی افطار بھی ان کا‘ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے‘عید گاہ لائیو‘ناز اٹھانے کو ہم رہ گئے شاعروں کے‘ہر گھڑی ہوتا ہے احساس‘اس سے معقول انتقام نہیں‘لڑکی کے باپ کا خط لڑکے کے والد کے نام‘لڑکے کے والد کا جواب لڑکی کے باپ کے نام‘میٹھی آزادی کڑوے پھل‘بانڈی وال کی قیادت‘پیچان کون‘بکروں کی عالمی کانفرنس‘منتری سے انٹرویو‘بھوک شاعر اور بیگم‘ہورہا ہے اب اثر غالب تری تحریر کا‘عرض ہنر ہی وجہ شکایات ہوگئی‘کتوں کی عالمی کانفرنس‘انتخابات کا اس دیش میں جال اچھا ہے‘بی سی کمیشن کے لیے ایک مثالی یادداشت‘جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں‘اکیچ میٹھا ایکچ کھانا‘ایک روپیہ کلو چاول کا المیہ‘گل خان‘استاد کا استاد چیلا‘نادانوں کا اجتماع‘ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا پڑھتے رہے‘بودھن جہاں تاریخ ادب معاش سب کچھ وغیرہ شامل ہیں۔

            شیخ احمد ضیاءکے یہ مضامین دلچسپ انداز تحریر‘ برمحل اشعار کے استعمال اور ہمارے اپنے سماجی موضوعات کے سبب دلچسپی سے پڑھے جائیں گے۔ ان مضامین میں انہوں نے خطوط کی تکنیک‘غالب سے عالم بالا میں گفتگو اور پیروڈی کے انداز میں اشعار کے استعمال سے دلچسپی پیدا کی ہے۔ شیخ احمد ضیاءکے مضامین روزنامہ منصف میں بھی سلسلہ وار کالموں کی شکل میں پیش ہوتے رہے ہیں۔ موضوعات کی رنگارنگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ شیخ احمد ضیاءاپنے اطراف سے باخبر رہتے ہیں اور اردو ادب سے ذوق کے پیش نظر اپنے موضوعات کو ادبی چاشنی کے ساتھ پیش کرتے رہتے ہیں۔ جس طرح وہ اپنے اطراف کے موضوعات کو اہمیت دیتے ہیں اگر وہ اپنا مطالعہ اور مشاہدہ وسیع کرتے ہوئے مزید قومی اور بین الاقوامی موضوعات پر مضامین لکھیں تو ان کی مزاح نگاری میں مزید نکھار پیدا ہوسکتا ہے۔ان مضامین کی نثر سادہ لیکن دلچسپ ہے ۔ انداز بیان میں قاری کو گرفت میں رکھنے کا ہنر ملتا ہے واقعاتی انداز بھی ہے ۔ شیخ احمد ضیاءکبھی اپنی جانب سے تخلیق کردہ کردار مرزا سے گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ تو کبھی سماج کے اہم کردار‘بیوی‘شوہر اور سیاست دان کو تختہ مشق بناتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان کی یہ تصنیف دلچسپی کی حامل ہے۔ اور مصنف کی اپنے فن پر عبور کی دلالت کرتی ہے۔ امید ہے کہ اردو ادب کے باذوق قارئین شیخ احمد ضیاءکی تازہ تصنیف”مجھے کچھ کہنا ہے“ کا گرمجوشی سے استقبال کریں گے۔ مصنف نے اس کتاب کو اپنے مرحوم والدین شیخ امین پٹیل اور والدہ محترمہ نور بی بی کے نام معنون کیا ہے۔ اور اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کی یادوں کے اجالے زندگی کے ہر موڑ پر ان کی رہنمائی کرتے رہے۔ چونکہ موجودہ زمانہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا ہے مناسب ہوگا کہ اس طرح کے مضامین بلاگ کی شکل میں اور فیس بک اور واٹس اپ کے ادبی گروپوں میں پیش ہوں تو اردو کی نئی نسل آن لائن مطالعے کے ذریعے ان مضامین سے مستفید ہوگی اور لوگوں میں مطالعے کا ذوق بڑھے گا اورفروغ اردو کی جانب ایک قدم ثابت ہوگا۔ اس کتاب کی اشاعت پر میں جناب شیخ احمد ضیا صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اردو کے ادبی حلقوں میں اس کتاب کی پذیرائی ہوگی اور شیخ احمد ضیاءاسی طرح اپنے نام کی مناسبت سے مزید مضامین لکھ کر اردو ادب میں روشنی بکھیرتے رہیں گے۔

 

                                                                                                ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی 

رحمٰن کے مہمان۔ مفتی آصف الدین ندوی۔

 


نام کتاب       :        رحمان کے مہمان

مصنف               :           مفتی سید آصف الدین ندوی قاسمی

مبصر                  :           ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

            حج اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ یہ ایک ایسی مالی عبادت ہے جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ اور اللہ کا کرم ہے کہ اس زمانے میں وسائل کی دستیابی سے اکثر مسلمان اس فریضہ کی ادائیگی کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ حج چونکہ کافی خرچے سے کافی مسافت طے کرنے کے بعد بڑی مشقتوں کا سامنا کرتے ہوئے ادا کیا جاتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس عبادت اور سفر حج سے متعلق ساری باتیں پہلے سے جان کر اور سیکھ کر کی جائیں تو دل کو طمانیت رہے گی کہ ہم نے احکام الٰہی اور سنت نبوی ﷺ کے مطابق یہ فریضہ انجام دیا۔ عبادت کے بارے میںعادت اللہ ہے کہ اسے سیکھ کر اور توجہ سے ادا کی جائے نماز میں غلطی ہو تو جس طرح سجدہ سہو لازم ہے اسی طرح حج کے ارکان میں بھول چوک ہوجائے تو جانور کی قربانی واجب ہے جسے دم کہتے ہیں۔ اس لیے حج کے امور سیکھنا ضروری ہیں۔ چونکہ عوام الناس روز مرہ کی عبادتوں کے علاوہ حج سے متعلق امور سے عام طور پر ناواقف رہتے ہیں اس لیے گزشتہ کچھ سال سے ہندوستان میں مختلف شہروں اور اضلاع میں عازمین حج کی باضابطہ تربیت کی جارہی ہے۔ حج کمیٹی کی جانب سے بھی تربیتی اجتماعات کا انعقاد عمل میں لایا جاتا ہے۔ انفرادی طور پر بھی کچھ لوگ حج و عمرہ سے متعلق عملی تربیت فراہم کرتے ہیں اور اس ضمن میں اردو اور دیگر زبانوں میں تربیتی مواد کی اشاعت اور تقسیم عمل میں لاتے ہیں۔ حیدرآباد اور تلنگانہ کے مختلف اضلاع میں انفرادی اور اجتماعی طور پر عازمین حج و عمرہ کی تربیت کرنے والوں میں ایک اہم نام مفتی سید آصف الدین ندوی قاسمی صاحب کا ہے۔ جو انسٹی ٹیوٹ آف عربک اسٹڈیز مہدی پٹنم کے ڈائرکٹر اور لبیک ایجوکیشنل و ویلفیر سوسائٹی کے بانی ہیں۔گزشتہ 15سال سے عازمین حج کی کامیاب تربیت کر رہے ہیں۔اس دوران تربیت حج و عمرہ سے متعلق اردو اور انگریزی میں ان کی کتابیں تربیت عازمین حج و عمرہ اور حج و عمرہ کی خصوصی دعائیں وغیرہ شائع ہو کر مقبول ہوچکی ہیں۔2017ءمیں انہوں نے اپنے والدین اور اہلیہ کے ساتھ سفر حج کیا تھا۔ اس سفر کی روداد کو انہوں نے ایک سفر نامہ کی شکل میں پیش کیا جس کا نام”رحمان کے مہمان“ ہے۔ یہ کہنے کو تو مفتی صاحب کے سفر حج کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔ لیکن اس میں مستقبل میں حجاز اور مدینہ منورہ کا سفر کرنے والے عازمین کے لیے بہت سی کام کی باتیں اور تربیت ہے۔ ایک حاجی کا تجربہ دوسرے کے لیے مشعل راہ ہوتا ہے۔ سفر کوئی بھی ہو اس میں راحت نہیں ہوتی اور طرح طرح کی مشکلات پیش آتی رہتی ہیں۔ یہ سفر عجم سے عرب کا ہے۔ جہاں نیا ماحول اور نئی نئی سہولتوں کے درمیان لاکھوں کی بھیڑ ہوتی ہے دونوں حرمین میں ایک وقت میں دس تا بیس لاکھ لوگ نماز پڑھتے ہیں۔ ہر نماز کے بعد کافی ہجوم رہتا ہے اس طرح کے حالات ایک عازم کے لیے نئے ہوتے ہیں۔اور وہ پہلے ہی ان حالات سے باخبر نہ رہے تو گھبرا سکتا ہے۔ حج کے لیے قرعہ نکلنے کے بعد سے سرکاری اور خانگی تیاری‘ ہر چیز بروقت اور احسن طریقے سے انجام پہونچانا اور خیر وہ خوبی سے مناسک عمرہ و حج ادا کرنا یہ اللہ کے کرم سے ہی ممکن ہے لیکن اس کے ساتھ بروقت درست اور مناسب تربیت ضروری ہے چونکہ مفتی سید آصف الدین ندوی صاحب نے دو سال قبل ہی یہ سفر کیا ہے چنانچہ ان کے لکھے ہوئے تاثرات تمام عازمین کے لیے اچھی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ جب انہوں نے اپنا یہ سفر نامہ شائع کیا تو اہل علم نے اس کی پذیرائی کی۔ حج میگزین میں یہ سلسلہ وار شائع ہوتا رہا ہے۔

            سفر نامہ حج”رحمان کے مہمان“ لکھنے کے طریقہ کار کے بارے میں مفتی صاحب نے لکھا کہ حرم میں نماز سے آدھا گھنٹہ قبل و ہ حرم پہونچ جاتے تھے اور نماز سے فارغ ہوکر ایک گوشہ میں بیٹھ کر دن بھر کی روداد لکھتے جاتے تھے۔ اس طرح حج کے ایام میں انہوں نے مناسک کی تکمیل کی اور روز مرہ پیش آنے والے مشاہدات کو دلچسپ انداز بیان کے ساتھ اس انداز میں پیش کیا کہ ایک مرتبہ جو اس کتاب کا مطالعہ شروع کردیتا ہے تو وہ اسے مکمل کرکے ہی دم لیتا ہے۔ اس سفر نامہ کی خصوصیت یہ ہے کہ بھلے ہی یہ مفتی صاحب کے سفر حج کی روداد ہے لیکن جو قاری اسے پڑھتا ہے اسے لگتا ہے کہ وہ بھی سفر حج میں ان کے ساتھ ہے۔اور مناسک حج ادا کر رہا ہے۔ حج کے لیے احرام باندھنا ‘گھر سے روانگی‘ حج ہاز حیدرآباد میں حجاج کرام کا استقبال اور روانگی کے مناظر اور حج ٹرمنل حیدرآباد پر حجاج کے لیے خصوصی انتظامات کو انہوں نے اس انداز میں بیان کیا ہے کہ نئے عازمین کو اس سے کافی معلومات ہوتی ہیں۔ فلائٹ کے مناظر اور جدہ ایرپورٹ پر پہونچنے کے بعد امگریشن کلرینس بسوں میں عازمین کی اپنی اپنی عمارتوں کو روانگی سامان کی معلومات بلڈنگ کے احوال سبھی عازمین کے لیے رہبری کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ مفتی صاحب کو قیام مکہ کے لیے حیدرآبادی رباط ملا تھا۔ وہاں کی سہولیات اور نظام زندگی کو انہوں نے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔مفتی صاحب نے حالت احرام میں جدہ سے مکہ پہونچنے اور رباط سے حرم پہونچنے کے بعد پہلے عمرے کی ادائیگی کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ پہلی مرتبہ عمرہ کرنے والوں کو ان باتوں سے کافی رہنمائی ملتی ہے۔حج ایک ایسا سفر ہے جہاں سارے عالم کے مسلمان جمع ہوتے ہیں اور ہمیں سارے عالم کے مسلمانوں کو سلام کرنے اور ان کی خیر خیریت دریافت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مفتی صاحب نے اس سفر نامے میں درمیان میں اپنے انفرادی تجربات بیان کئے کہ کس طرح حرم میں بیٹھنے کے دوران ان کی ملاقات پاکستان اور انڈونیشیائی عازمین سے ہوئی تھی اور ان سے کیا گفتگو رہی۔ حج سے قبل کے ایام میں اکثر عازمین مسجد عائشہ جا کر احرام باندھتے ہوئے عمرے کرتے ہیں اس ضمن میںبھی مفتی صاحب نے اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ مکہ میں رہنے کے دوران سم کارڈ کی سہولت‘فون کا استعمال ‘رباط میں وائی فائی کی سہولت کا حد سے زیادہ استعمال اور طواف کے دوران عازمین کی فوٹو گرافی کی لعنت کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ ہم دنیا سے کٹ کر اللہ کے دربار میں پہونچتے ہیں تاکہ ہم گناہوں سے پاک ہو کر لوٹیں لیکن فون کی بدولت عازمین کی عبادتوں میں اخلاص کی کمی دیکھی جارہی ہے جس جانب مفتی صاحب نے اشارہ کیا۔مفتی صاحب چونکہ عربی سے واقف ہیں چنانچہ انہوں نے وہاں ہونے والے خطبات جمعہ کا خلاصہ بھی اس سفر نامہ میں پیش کیا۔حرم میں ہونے والی نئی تعمیرات کی تفصیل‘برقی سیڑھیوں اسکیلیٹر کا استعمال‘حرم میں دی جانے والی جدید ہدایات یہ وہ باتیں ہیں جو اس سفر نامے کا خاصہ ہیں اور دیگر تربیتی کتابوں میں نہیں ملتیں۔مفتی صاحب نے بعض ایسے تجربات بھی بیان کئے جو ہر عازم کو الگ الگ طور پر پیش آتے ہیں۔ اپنی چپلوں کی حفاظت وہاں ایک اہم مسئلہ ہے اس کے تجربات کو بھی انہوں نے رہبری کے انداز میں پیش کیا۔

            حج کا سفر7ذی الحجہ سے شروع ہوجاتا ہے ۔ مفتی صاحب نے لکھا کہ کچھ معلمین کے عازمین ٹرین سے منیٰ پہونچائے جاتے ہیں اور اکثر بسوں سے۔ رات سے ہی عازمین کی منتقلی کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔ حج کے لیے چونکہ پانچ دن منیٰ عرفات مزدلفہ اور منیٰ میں رہنا پڑتا ہے اس کے لیے عازمین کو کس قسم کی تیاری کرنا ہے یہ ساری تفصیلات اس سفرنامے میں ہیں۔ درمیان میں پیش آنے والے واقعات بھی دیگر عازمین کے لیے رہنما ہوسکتے ہیں۔ منیٰ میں قیام کے دوارن اوقات کا درست استعمال وہاں احرام کی پابندیوں کے ساتھ رہنا اور عرفات کو روانگی ‘وقوف عرفہ‘ دعاں کو اہتمام بعد مغرب مزدلفہ کو روانگی رات بھر مزدلفہ میں رہنا اور صبح منٰی پہونچ کر 10ذی الحج کو بڑے شیطان کی رمی کرناقربانی و حلق اور احرام اتارنا یہ ساری تفصیلات مشاہدات کی شکل میں پیش کی گئی ہیں۔درمیان میں مفتی صاحب نے بعض اہم مسائل بھی بیان کئے ہیں جیسے خواتین کے بال کاٹنے کی تفصیلات وغیرہ۔طواف زیارة ‘11اور 12کو منیٰ میں اوقات کیسے گزاریں اور حج کی تکمیل ‘مکہ مکرمہ میں دیگر مقدس مقامات کی زیارت اور مدینہ روانگی سے قبل کی تفصیلات ہمیں اس سفرنامے میں ملتی ہیں۔مدینہ روانگی سے قبل عمروں کی ادائیگی ‘زیادہ سے زیادہ وقت طواف کرنا اور دیگر اعمال کی جانب مفتی صاحب نے توجہ دلائی ہے۔واضح رہے کہ مکہ میں ہر نیک عمل کا بدلہ ایک لاکھ ہے تو یہان صدقہ و خیرات کرنے تلاوت قرآن اور دیگر اذکار کی کافی اہمیت ہے۔ مدینہ روانگی سے قبل طواف وداع ‘سامان باندھنا سفر مدینہ کے دلفریب نظارے اور مدینہ منورہ پہونچنے کے بعد ہوٹل کی سہولیات‘ مدینہ میں حاضری مسجد نبوی ﷺ کے آداب‘ روضہ اقدس ﷺ کے سامنے پیش ہونا‘ دعاں کااہتمام ‘مسجد نبوی میں ریاض الجنہ میں قیام‘دیگر مقامات میں عبادات‘جنت البقیع اور دیگر مساجد کا سفر اور مدینہ میں چالیس نمازون کا اہتمام اور دیگر تفصیلات کو مشاہدات کے ساتھ پیش کیا ہے۔ مفتی صاحب نے اس سفر نامے میں انڈین حج مشن کی کارکردگی اور ہندوستانی عازمین کو کیسے ان سہولیات سے استفادہ اٹھانا ہے اس کی تفصیلات بھی دی ہیں۔ سفر حج کی تکمیل کے بعد ہندوستان واپسی اور اللہ کے حضور ہدیہ تشکر کی پیشکشی کے ساتھ اس سفر نامے کا اختتام عمل میں آتا ہے۔ مفتی صاحب نے واقعاتی انداز میں یہ سفر نامہ لکھا ہے اس لیے اس میں قاری اور عازمین کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔ عازمین حج و عمرہ اس کتاب کو اپنے مطالعے میں رکھیں۔ جن کو اردو پڑھنی نہیں آتی وہ کسی سے اس کتاب کے تمام حصے الگ الگ پڑھ کر سنیں اور فون میں ریکارڈ کرلیں۔ اس کتاب کی آڈیو تیار کی جائے تو بھی مناسب رہے گا اور تصاویر کی مدد سے ویڈیو بھی بن سکتی ہے۔ اسی طرح انگریزی اور دیگر زبانوں میں بھی یہ سفر نامہ پیش ہوتو مناسب رہے گا۔ کتاب کے آخر میں ڈاکٹر م ق سلیم اور دیگر کی آرا شامل ہے۔ حج و عمرہ کے ارکان کا اختصار سے بیان شامل کیا گیا ہے۔ کتاب”رحمان کے مہمان“کی قیمت100روپئے ہے۔اور یہ مفتی صاحب سے ان کے فون نمبر9849611686پر رابطہ کرتے ہوئے حاصل کی جاسکتی ہے یا حیدرآباد کے اہم بک اسٹورز پر دستیاب ہے۔امید کی جاتی ہے کہ ہرسال جو عازمین حج قرعہ کے ذریعے یا خانگی سفر حج کے لیے منتخب ہوئے ہوں وہ حج جیسی عظیم عبادت کو درست طور پر انجام دینے اور وہاں سفر کے دوران پیش آنے والے حالات سے پہلے سے باخبر رہنے کے لیے اس سفر نامہ”رحمان کے مہمان“ کو ضرور مطالعے میں رکھیں گے اور سفر حج کے دوران ہر عمل سے پہلے اس کتاب کو پڑھیں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ عازمین حج و عمرہ کی تربیت کے لیے مفتی سید آصف الدین ندوی قاسمی صاحب کی اس کاوش کو اللہ تعالیٰ قبولیت دوام بخشے گا اور اس کتاب سے اردو داں عازمین کی رہبری ہوتی رہے گی۔


گٹھلیوں کے دام- بیلن نظام آبادی

 



نام کتاب                   :        گٹھلیوں کے دام

شاعر                 :           بیلن نظام آبادی

مبصر                  :           ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

            نظام آباد اُردو شعرو ادب کی آبیاری کے اعتبار سے ایک زرخیز زمین ہے۔ شہر اردو حیدرآباد کے بعد یہ علاقہ تلنگانہ کا دوسرا بڑا اُردو مرکز ہے۔ شہر نظام آباد میں آزادی کے بعد سے اُردو کی کافی ترقی ہوئی۔ اردو شاعروں کا انعقاد، اردو کی ادبی محفلیں‘ اُردو ذریعے تعلیم کے مراکز اور اُردو اخبارات کے اجراءسے یہاں اُردو کا ماحول بنا ہوا ہے۔ لوگوں میں اُردو ادب اور خاص طور سے اُردو شاعری کا ذوق ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ یہاں آئے دن چھوٹے بڑے سنجیدہ و مزاحیہ مشاعرے ہوتے رہتے ہیں۔ جن میں کلام سناتے ہوئے کئی شعراءنے قومی و بین الاقوامی شہرت حاصل کی ۔ نظام آباد سے ابھر کر بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت بنانے والے ایسے ہی ایک شاعر جناب اقبال احمد بیلن نظام آباد ی ہیں۔ جو اپنے مخصوص اور معیاری مزاحیہ شاعری کے سبب نظام آباد ، حیدرآباد کے علاوہ خلیجی ممالک میں کافی مقبول ہیں۔ زندہ دلان حیدرآباد کے مشاعروں میں ان کی کافی پذیرائی ہوئی۔ اور علاقہ تلنگانہ ، آندھرا، مدھیہ پردیش ، گجرات ، کرناٹک اور مہاراشٹرا کے کئی مشاعروں میں انہوں نے اپنا دلچسپ مزاحیہ کلام سناکر خوب داد حاصل کی۔ گذشتہ دو دہائیوں سے جدہ میں بغرض ملازمت مقیم ہیں۔ اور وہاں بزم اُردو جدہ ، بزم گلبن اردو ، بزم اتحاد جدہ اور دیگر ادبی محافل میں شرکت کرتے ہیں اور برصغیر کے شعراءمیں کافی مقبول ہیں۔ ان کی مزاحیہ شاعری پر مبنی کلام کا مجموعہ”گٹھلیوں کے دام“ کے نام سے منظر عام پرآیا ہے۔

            جہاں تک طنز ومزاح کا تعلق ہے یہ ہماری زندگی کا اہم حصہ ہے۔ انسان اپنی زندگی میں روزمرہ کے کام سے تھک جاتا ہے ۔ زندگی کی ناہمواریوں اور مسائل سے وہ پریشان ہوجاتا ہے اور چاہتا ہے کہ زندگی کے کچھ لمحے ہنس بول کر گذارے۔ تاکہ پھر وہ زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنے کےلئے اپنے آپ کو تیار کرلے۔چناچہ اچھا مزاحیہ ادب اسے کچھ ہنسی کے لمحے فراہم کر تا ہے۔ مزاحیہ شاعر زندگی کے تلخ حقائق کو ا س انداز میں پیش کرتاہے کہ سننے والا ہنسنے پر مجبور ہوتاہے۔ آج ہماری زندگی میں معاشی

 پر یشانی ‘ مہنگائی ‘ بدنام سیاست ‘ شادی بیاہ کے جھگڑے اولاد کی نا فر مانیاں ‘گھر اور سماج کے بے شمار مسائل ہیں۔ مزاحیہ شاعران مسائل سے مزاحیہ پہلو نکا لتاہے اور انہیں شعر کے سانچے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے۔طنز میں ایک قسم کی چبھن ہو تی ہے جو بات طنز یہ انداز میں کہی جائے وہ سیدھے دل پر چو ٹ کرتی ہے۔ بیلن نظام آبادی بنیادی طور پر مزاح کے شاعر ہیں۔ اور انہوں نے اپنے ماحول اور اپنے سماج سے مزاح کے مو ضو عات تلاش کئے ہیں۔شعر ی مجمو عہ ”گٹھلیوں کے دام “کا آغاز حمد و نعت کے اشعار سے ہوتاہے۔ اپنے رب کو مالک کل قراردیتے ہوئے بیلن کہتے ہیں:

اس پہ اس کی عطا پہ چھوڑ دیا                 میں نے سب کچھ خدا پہ چھوڑ دیا

زند گی کام کی ہوئی میری                    تیر ی حمد ثناءپہ چھوڑ دیا

نعت نبی ﷺ میں آقا ﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

                        وہ دل نہیں جس میں سوز الفت وہ دل نہیں جس میں عشق احمد

                        حیات ہے زندگی نہیں ہے چراغ ہے روشنی نہیں ہے

اور مقطع میں یوں فر ما تے ہیں۔

            رہے ہو اقبال تم بھی قائل اساتذہ کا بھی قول ہے یہ              جو نعت گو ئی سے ہے مبرا وہ شاعری شاعری نہیں ہے

شعری مجمو عہ ” گٹھلیوں کے دام “ بیلن صاحب کی گذ شتہ دو دہا ئیوں کی شعری کاوشوں کا مجمو عہ ہے۔ اس میں غزلیں ،نظمیں ،قطعات اور متفرق اشعار ہیں۔

            اردو شاعری کے فروغ میں مو جو د ہ دورکے مشا عروں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ مشاعروں میں با ذوق سا معین کے ساتھ منچلے نواجوان بھی آتے ہیں ۔ جو ہلکے پھلکے مزاح کو پسند کرتے ہیں۔ اور ناظم مشا عرہ بھی مشا عرے کو عروج پر لانے کے لئے مزاحیہ شعراءکودعوت سخن دیتے ہیں۔ بیلن صاحب بھی ایسے شاعر ہیں جو مشاعروں میں جان ڈال دیتے ہیں۔ حا لا ت حاضرہ پر ان کی گہری نظر ہے۔ شادی بیاہ کے مو قع پر گھوڑے جو ڑے کی رقم کی لعنت چل پڑی ہے اس پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں:

گیارہ ہزار مہر کے جوڑے کے پانچ لاکھ                تکمیل آرزوبھی ہے کس سادگی کے ساتھ

مزاحیہ شاعروں نے اپنے دور کی سیاست پر طنز کرتے ہوئے خوب داد حاصل کی ہے۔ بیلن صاحب نے بھی جا بجا اپنے کلام میں وقت کے حکمرانوں اور ان کے کرتوتوں پر طنز کیا ہے۔

سیاست میں بھی سب اداکاریاں ہے       تماشہ ہے حکمرانی نہیں ہے

کھو درئیں روز ایک نیا کھڈا                   ان کو اردو سے پیار ہے سو ہے

ہر ایک بات اردو میں ہونے لگی ہے        الیکشن کے دن پھر کو آئے سریکا ہے

شادی بیاہ سے متعلق مو ضو عات کو دیگر شعراءکی طرح بیلن صاحب نے بھی خوب برتاہے۔ ایک گھر جنوائی کا حال دیکھئے۔

سسرال میں ہماری بڑی دیکھ بھال ہے                گنتی کے تین پھلکے ہیں اور با سی دال ہے

کثرت او لاد کے مو ضوع کے بارے میں بیلن صاحب لکھتے ہیں۔

چھلے کی حما قت ہو گئی نامیں پہلے ائچ نکو بو لا تھا            پھر سرکی حجامت ہو گئی نا میں پہلے ائچ نکو بولا تھا

ہر برس ایک نئی افتادخدا خیر کرے       ہائے یہ کثرت اولاد خداخیر کرے

سالااُردو مزاحیہ شاعری کا مقبول موضوع ہے۔ بیلن صاحب نے سالاردیف میں ساری غزل کہہ ڈالی سالے کے بارے میں کہتے ہیں۔

پھر میرے گھر اٹک گیا سالا                 اپنا بسترپٹک گیا سالا

بیگم کی شاپنگ سے تنگ شوہر کے خیالات دیکھئے۔

شاپنگ بیگم کی ہے نقد بیلن                 گھر کا غلہ اُدھار ہے سو ہے

مزاحیہ شاعری سے اصلاح کے پہلونکالتے ہوئے بیلن کہتے ہیں۔

باجے گاجے کے ہم نہیں قائل            شادی سادہ ہو جس میں دھوم نہ دھام

مہر گر ہو سکے تو کم رکھئے                      ہم مسلماں ہیں دین ہے اسلام

سچ ہے بیلن جو لوگ کہتے ہیں                 آم کے آم گٹھلیوں کے دام

سنبھل جا ئو  چنو نواب زمانہ خراب ہے    میاں چھوڑو گانجہ شراب زمانہ خراب ہے

            اُردو کے نامور شعرا کے کلام کے وزن میں پیروڈی کی شکل میں بھی بیلن صاحب نے اچھی مزاحیہ غزلیں کہیں ہیں۔

رازالہ آبادی کی ایک غزل لذت غم بڑھادیجئے۔آپ پھر مسکرادیجئے کے وزن پر چھوٹی بحر میں غزل کے اشعار ملاحظہ ہوں۔

درد سر کا بڑھا دیجئے               اک غزل پھر سنادیجئے

میں بھی بیلوں گا پاپڑ مگر          اک بیلن منگا دیجئے

اسی طرح فصاحت جنگ جلیل کی غزل

سادگی لاجواب ہے جن کی     ان سوالوں کی یاد آتی ہے       کے وزن پر غزل دیکھئے

باکمالوں کی یاد آتی ہے                      ہم کو سالوں کی یاد آتی ہے

جن کے پاشو دے نہ سکے تھے جو اب        ان سوالوں کی یاد آتی ہے

آہستہ آہستہ کے وزن پر غزل دیکھئے۔

محبت میں جزا بھی ہے محبت میں سزا بھی ہے           ثواب اک لخت ملتا ہے اور عذاب آہستہ آہستہ

دنیا جسے کہتے ہیں مٹی ہے نہ سونا ہے                      نقدی ہے تو ہنسنا ہے کڑکی ہے تو رونا ہے

نئے زمانے کے حالات پر طنز ملاحظہ ہو۔

عہد نو کی یہ نادانی ہے کہ ہوشیاری ہے      گود میں تو ہے بچہ ماں مگر کنواری ہے

مزاحیہ شعراءکو پھکڑ پن سے باز رہنے کے لئے اپنے آپ سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

جس میں ہو کچھ کام کے باتاں ایسے غزلاں لکھ بیلن               ہاہا ہی ہی کرکے پاشو سستی شہرت کیکورے

بیلن صاحب نے اپنے تخلص کو جابجا اچھے انداز میں برتا ہے اور مزاح کے ساتھ معیاری گفتگو بھی کی ہے ۔ ایک شعر ملا حظہ ہو۔

اقبال تخلص اچھا تھا علامہ کی گنجائش تھی              بیلن ہی کی شہرت ہوگئی نا میں پہلے ایچ نکو بولا تھا

            دکنی لہجے میں بیلن نظام آبادی نے جو نظمیں کہیں ہیں وہ ان کے مخصوص لحن میں سننے کے قابل ہیں اور ان کی وجہہ سے انہیں بہت شہرت ملی ہے۔ حالات حاضرہ کی نظم دیکھئے۔

میں بولا نکو زمانہ کے سی آر کا ہے

  لوگاں گائوں میں رہ کو بھی دورہ بتارئیں

گھر میں بیٹھ کو بھی کتے کی ٹی اے بل بنارئیں

دل بولا تو دفتر کو منہ دکھارئیں

دل میرے بھی بولا یہ دورتڑی مار کا ہے

میں بولا نکو زمانہ کے سی آر کا ہے

            بیلن نظام آبادی نے عام آدمی کے طورپر پاشو میاں کا کردار تخلیق کیا اور وہ پاشو میاں کہتے ہوئے عام آدمی کی زندگی کی باتیں مزاحیہ انداز میں کہہ گئے۔ بیلن نظام آبادی کی شاعری میں وزن اور بحر کا خاص خیال پایا جاتا ہے یہی وجہہ ہے کہ ان کے اشعار فوری اثر کرجاتے ہیں۔ ان کے مزاح میں پھکڑ پن نہیں اور نہ ہی انہوں نے مزاح کےلئے بازاری اور عامیانہ موضوعات برتے ہیں۔ ان کی مزاحیہ شاعری سنجیدہ نوعیت کی ہے اور محفلوں میں سننے کے لائق ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ جب لوگوں نے بیلن صاحب کو پہلی مرتبہ سنا تو ان کے گرویدہ ہوگئے۔ کئی قدردان فن نے انہیں نجی محفلوں میں بار بار سنا اور ان کے اشعار یاد رکھے۔ اکثر مزاحیہ شعراءکا مجموعہ کلام زیور طباعت سے آراستہ نہیں ہوتا لیکن بیلن صاحب اپنے کلام کو باذوق قارئین شاعری کے لئے پیش کررہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے فروغ کے دور میں بیلن صاحب کے لئے مشورہ ہے کہ وہ اپنے منتخب کلام کو لحن میں پڑھ کر اس کے ویڈیو کو بھی منظر عام پر لائیں۔ امید کی جاتی ہے کہ شعری مجموعہ ”گٹھلیوں کے دام“ کی خوب پذیرائی ہوگی اور ایک شاعر کے لئے حقیقی داد تب ہی ملے گی جب اس کا یہ مجموعہ سونے کے دام میں ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ مجموعی طورپر بیلن نظام آبادی کی شاعری اپنے عہد کی آواز ہے اور امید ہے کہ اس کی گونج ساری دنیا میں سنائی دے گی۔

تاریخ ساز ہوگا یقینا مشاعرہ     شعرا کی لسٹ میں میاں بیلن کا نام ہے

 


Search This Blog