عرفان ادب ۔ ڈاکٹر محمد ابرارالباقی



   

نام کتاب    :        عرفان ادب ۔ادبی و تنقیدی مضامین

نام مصنف     :        ڈاکٹر محمد ابرارالباقی

نام مبصر                  :        ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

            اکیسویں صدی بڑی تبدیلیوں اور تیز رفتار ترقی کی صدی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے فروغ سے معلومات کاایک سیل رواں بہہ رہا ہے۔ دنیا گلوبل ولیج میں سمٹ گئی ہے۔ لیکن انسانی مصروفیات بہت بڑھ گئی ہیں۔ وقت کی کمی کا احساس لئے انسان مشینی زندگی گزار رہا ہے۔ زندگی کی اس ہما ہمی میں دیگر زبانوں کی طرح اُردو زبان بھی نئی صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہورہی ہے۔ اور اُردو زبان وادب کی وراثت نئی نسلو ں کو منتقل ہورہی ہے۔ اُردوکی جامعات کے قیام اور اُردوشعبہ جات میں نئے اساتذہ کے تقررات اس امید کو ظاہر کرتے ہیں کہ اُردوکا مستقبل تاریک نہیں ہے۔ اُردوکے فروغ کے لئے قومی و ریاستی سطح پر ادارے اور اکیڈیمیاں کام کر رہی ہیں۔ اور زبان و ادب کی سرپرستی کے ذریعے اُردو کو استحکام بخشنے کی کوشش کر رہی ہیں۔آندھرا پردیش کی اُردو اکیڈیمی اپنے ذیادہ بجٹ کے اعتبار سے ملک کی سر فہرست اُردواکیڈیمی کے طور پر جانی جاتی ہے۔ اس اکیڈیمی کے تحت فروغ اُردو کی کئی اسکیمات رو بہ عمل لائی جارہی ہیں۔ ان اسکیموں میں اُردو کتابوں کی اشاعت کے لئے ادیبوں کی مالی اعانت کی اسکیم بھی ہے۔ جس کے تحت اُردو کی سبھی اصناف میں معیاری کتابوں کی اشاعت عمل میں آرہی ہے۔ اور شاعری ‘افسانہ‘تحقیق و تنقید پر مشتمل ادب کا قیمتی سرمایہ محفوظ ہورہا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب ”عرفان ادب“ بھی اسی ادبی سرمایہ کا ایک حصہ ہے۔ جو اُردو اکیڈیمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہوئی ہے۔کتاب کے مصنف ڈاکٹر محمد ابرارالباقی اسسٹنٹ پروفیسر و انچارج صدر شعبہ اُردو ساتاواہانا یونیورسٹی کریم نگر ہیں۔ ےہ کتاب ڈاکٹر محمد ابرارالباقی کے تحقیقی و تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ان کی تحقیقی کتاب”تصانیف ڈاکٹر زور کی وضاحتی کتابیات “ شائع ہو کر ادبی حلقوں میں مقبول ہوچکی ہے۔اور اُردو اکیڈیمی نے اس کتاب کو انعام بھی دیا ہے۔”عرفان ادب“ کتاب میں شامل مضامین صاحب کتاب کے وہ مضامین ہیں جو انہوں نے قومی سطح پر ملک کی مختلف جامعات میں منعقد ہونے والے ادبی سمیناروں میں مقالے کی شکل میں پیش کئے تھے۔ اور بعد میں اُردو کے معیاری رسائل میں ان کی اشاعت عمل میں آئی تھی۔ اور اب یہ مضامین” عرفان ادب“ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوکر محفوظ ہوچکے ہیں۔

            ” عرفان ادب“ کے آغاز میں ” پیش گفتار“ کے عنوان سے اُردو کے نامور محقق و نقاد پروفیسر سلیمان اطہر جاوید نے پیش لفظ لکھا ہے ۔وہ ڈاکٹر محمد ابرار الباقی کے ان مضامین کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

” ان کے مطالعے کی وسعت اور نظر کی گہرائی کا اندازہ ہوا۔ متعلقات مو ضوع پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے۔ اور زبان وبیان کی نزاکتوں کا وہ خیال رکھتے ہیں۔ ۔۔۔ ڈاکٹر محمد ابرارالباقی نے ان مضامین میں کچھ ایسے نئے پہلو نکالے کہ تھوڑا ہی سہی اقبالیات میںان کی حیثیت امتیازی ہوجاتی ہے۔ و نیز انہوں نے مضامین میں اپنے زاویہ نگاہ سے کام لیا ہے۔(سلیمان اطہر جاوید۔ عرفان ادب۔ ص۔5)

”عرفان ادب باقی“ کے عنوان سے ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریس اسوسی ایٹ پروفیسر وصدر شعبہ اردو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے کتاب پر تعارفی مضمون لکھا ہے۔ وہ اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

” ان مضامین میںکہیں تحقیق کا پٹ ہے تو کہیں تنقید کا رنگ چوکھا نظر آتا ہے۔ منصنف نے ان مضامین میں نہائت ذہانت سے اس کی تشریح و تفسیر کی ہے۔ ان کا زاویہ نگاہ تاثراتی ہے۔ ان مضامین میں انہوں نے تفہیم و تحسین کے ساتھ ساتھ موضوع کی عصری معنویت کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ۔۔ ان مضامین میں ان کا رویہ ہمدردانہ اور لب و لہجہ درد مندانہ ہے۔ ان میں قومی و ملی کے ساتھ اردو زبان و ادب کو اعلیٰ ترین رفعتوں پر دیکھنے کی تمنا کروٹیں لیتی نظر آتی ہے۔(ڈاکٹر محمد نسیم الدین فریس۔ عرفان ادب۔ ص۔8)

” عرفان ادب “کے مصنف ڈاکٹر محمد ابرار الباقی نے ” کچھ مضامین کے بارے میں“ عنوان کے تحت اپنی مضمون نگاری کی روش بیان کی ہے۔ اور لکھا کہ” میں نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ آج سے ایک صدی قبل ادب میں پیش ہونے والے خیالات کا عصر حاضر کی زندگی کے مسائل کی روشنی میں مطالعہ کیا جائے۔ اور ان سے موجود زمانے کے مسائل کا حل تلاش کیا جائے“۔

            ” عرفان ادب“ مجموعے میں کل10 تحقیقی و تنقیدی مضامین شامل ہیں۔ جنہیں ادبی شخصیات اور اصناف سخن کے زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ میر تقی میر‘اقبال‘اکبر الہ آبادی‘چکبست اور فیض سے متعلق مضامین شخصیات کی ادبی و صحافتی و ملی خدمات کا احاطہ کرتے ہیں ۔خاکہ نگاری اور آزاد نظم سے متعلق مضامین اصناف سخن کی باریکیوں کو واضح کرتے ہیں۔ مضمون ”میر تقی میر ایک عہد ساز شاعر“ میں میر کی شاعری کی خصوصیات کو ان کے کلام کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ دل اور دلی کی تباہی کے تذکرے اور میر کے غم کی آفاقیت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ابرار الباقی لکھتے ہیں:

                        ” میر کا غم آفاقی تھا۔ اس لئے آج بھی ہر غم ذدہ میر کی شاعری میں اپنا غم تلاش کرتا ہے۔

                        دل اور دلی گرچہ دونوںہیں خراب       پر کچھ لطف اس اُجڑے نگر میں بھی ہے

                        دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے                                پچھتاگے سنو ےہ بستی اُجاڑ کر  (عرفان ادب۔ ص۔25)

” اکبر کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری “ مضمون میں اکبر کے کلام کے حوالے سے ان کی شاعری کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ اور اکبر کے ملی جذبے و زمانہ شناسی کو خراج پیش کیا گیا ہے۔ اکبر کی شاعری کے بارے میں ڈاکٹر محمد ابرار الباقی لکھتے ہیں:

” اکبر کی شاعری پیامیہ ہے۔ ان کی شاعری سے وطن دوستی ‘مشرقی تہذیب سے محبت کا سلیقہ اور اعلیٰ انسانی اقدار کی پاسداری کا سبق ملتا ہے۔( عرفان ادب۔ ص۔43)

مضمون” قومی یکجہتی اور اقبال“ میں اقبال کے نظریہ قومی یکجہتی کو ان کی نظموں کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔ مضمون میں قومی یکجہتی کی تعریف اور اس کی ضرورت اور اہمیت کو جس انداز میں اجاگر کیا گیا ہے۔ وہ ہندوستانی تناظر میں اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر باقی نے لکھا کہ ”قومی یکجہتی کا پیغام عام کرنے کے لئے عوامی طور پر مقبول زبان کی ضرورت پڑتی ہے۔ او رےہ کام اُردو زبان نے بخوبی انجام دیا ہے۔اقبال کے قومی یکجہتی کے پیغا م کی عصری معنویت ظاہر کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ابرار الباقی لکھتے ہیں:

” اقبال کی شاعری سے فیضیاب ہونا آنے والی قوموں کی ذمہ داری ہے۔ اقبال کا نظریہ قومی یکجہتی واضح ہے۔ کسی شاعر کا ایک گیت ہی ساری قوم میں اتحاد پیدا کر سکتا ہے۔ اور وہ گیت اقبال کا ترانہ ہندی ہے۔ اگر اقبال کے نظریہ قومی یکجہتی سے کام نہیں لیا گیا اور لوگ مذہب‘زبان اور کلچر کے نام پر لڑتے رہیں تو ان کی ترقی ممکن نہیں۔( عرفان ادب۔ ص۔58)

مضمون ”چکبست ایک محب وطن شاعر “ میں ڈاکٹر محمد ابرارالباقی نے چکبست کے جذبہ حب وطن کو خراج پیش کیا ہے۔ اور ان کی نظم ” خاک وطن“ کے تجزیے کے ذریعے واضح کیا کہ چکبست نے لوگوں کو ہندوستان کے ذرے ذرے سے پیار کرنا سکھایا اور اس کے ذریعے لوگو ں میں وطن کی محبت کا جذبہ پروان چڑھایا۔         مضمون” تحریک آزادی کا بے باک صحافی محمد علی جوہر“ میں محمد علی جوہر کی صحافتی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اور ان کے مروجہ صحافتی اصول بھی بیان کئے گئے ہیں۔ مضمون” جنوبی ہند کے معمار تعلیم ڈاکٹر محمد عبدالحق“ میں علاقہ کرنول کے نامور ماہر تعلیم محمد عبدالحق کرنولی کی تعلیمی و ملی خدمات کو اجاگر کیا گیا۔ مضمون” ڈاکٹر زور۔دکنی ادب کے معمار“ میں ڈاکٹر محمد ابرارالباقی نے دکنی ادب کے کوہ نورزور صاحب کی دکنی زبان و ادب کے فروغ‘اور بہ حیثیت شاعر‘نقاد‘محقق اور ماہر لسانیات“ ان کی خدمات کا احاطہ کیا ہے۔ فیض کی نظم ” صبح آزادی “ کا سیاسی ‘سماجی و ادبی تناظر میں تجزیہ کیا گیا۔فیض کی نظم کا یہ شعر 

                                    یہ داغ داغ اُجالا یہ شب گزیدہ سحر                   وہ انتظار تھا جس کا ےہ وہ سحر تو نہیں

کے حوالے سے ڈاکٹر محمد ابرار الباقی لکھتے ہیں:

” یہ نظم فطرت کے اس اٹل قانون کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے تقدیر کہتے ہیں۔ بہت سے لوگ تقدیر پر بھروسہ نہیں کرتے اور ےہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے ہاتھوں سے تقدیر لکھیں گے۔ لیکن آخر میں ےہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انسان اپنے لئے بہت کچھ سوچتا ہے لیکن ہوتا وہی ہے جو قدرت اور فطرت کا قانون ہے۔( عرفان ادب۔ ص۔107)

مضامین” آزاد نظم ایک مطالعہ“ اور ”اُردو میں خاکہ نگاری کی روایت“ اپنے موضوع پر خاطر خواہ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر ڈاکٹر محمد ابرار الباقی کے یہ ادبی تحقیقی و تنقیدی مضامین معلوماتی ہیں۔ انداز تنقید تاثراتی ہے۔ موضوع کی تفہیم و تشریح کے ساتھ نتائج اخذ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور مصنف نے اپنی رائے کو امانت کے طور پر پیش کیا ہے۔ اردو ادب کے طالب علموں کے لئے ےہ تاثراتی مضامین ادب کی تفہیم میں ضرور معاونت کریں گے۔ جس کے لئے ڈاکٹر محمد ابرا لباقی مبارک باد کے لائق ہیں۔ امید ہے کہ وہ ادب کے دیگر گوشوں پر بھی اپنی ہمداردانہ اور تاثراتی نظر ڈالیں گے۔ اور اردو ادب کے خزانے سے قیمتی موتی ڈھونڈ لائیں گے۔ عمدہ کتابت و طباعت سے آراستہ 200 روپئے قیمت والی ےہ کتاب ہر ادب کے طالب علم کے زیر مطالعہ ہونی چاہئے۔ اور کتب خانے کی زینت بننی چاہئے۔آئی ایس بی این نمبر کے ساتھ یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاز نئی دہلی نے شائع کی ہے۔ کتاب مصنف سے ان کے فون:9440717525پر رابطے کے ساتھ حاصل کی جاسکتی ہے۔ اردو کتابوں کی اشاعت میں ادیبوں کا مالی تعاون کرنا اردو اکیڈیمی اے پی کا مستحسن اقدام ہے۔ جس کے لئے اکیڈیمی کے موجودہ سکریٹری ڈائرکٹر ڈاکٹر ایس اے شکور بھی مبارک باد کے حق دار ہیں۔

                                                                                               

  

 

حرف و سخن.جمیل نظام آبادی


حرف و سخن

شاعر:  جمیل نظام آبادی

مبصر:  ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

                                                                       

            غزل کو اردو شاعری کی آبرو کہا گیا ہے ۔ اور اس آبرو کو بڑھانے اور غزل کے گےسو سنوارنے کا کام ہر دور میں اردو شعرا نے کیا ہے۔ اردو غزل کا سفر آج بھی جوش و خروش سے جاری ہے اور بلا لحاظ مذہب و ملت ‘ زبان اور تہذیب اردو غزل نے اپنے تغزل اور بانکپن سے لوگوں کا دل جیتا ہے۔اردو غزل کے کارواں میں روایت کی پاسداری کرنے اور عصری حسیت کا امتزاج رکھنے والے اےک اہم شاعر جمیل نظام آباد ی ہیں۔ جمیل نظام آبادی جنوبی ہند کے علاقہ تلنگانہ کے شہر اردو ‘نظام آباد سے اٹھنے والی اردو غزل کی ایک معتبر آواز ہے۔ اپنی غزلوں پر مشتمل ان کا چھٹا شعری مجموعہ” حرف و سخن“ہے۔ اس سے قبل ان کے دیگر شعری مجموعے”سلگتے خواب “1978 ”تجدید آرزو“1985 ئ،صبر جمیل1993ءدل کی زمین 2004ء’سب سخن میرے ‘ 2009ء شائع ہوکر ادبی حلقوں میں مقبول ہوچکے ہیںساتھ ہی نثری مجموعہ ”حروف جمیل“ 2006ء شائع ہوا ہے۔ وہ گذشتہ چالیس سال سے ادبی رسالہ ” گونج“ بھی نکال رہے ہیں۔ جو ان کی ادبی صحافت کی پختہ کاری کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اپنے دعوی

            اور پھیلوں گا جو لوٹا گے آواز میری                             اتنا گونجوں کا صدیوں کو سنائی دوں گا

کے مصداق بڑی آب و تاب کے ساتھ اردو ادب کی خدمت کر رہا ہے۔

             جمیل نظام آبادی کے سابقہ اور موجودہ شعری مجموعے کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اردو غزل کی رسمیات سے واقف ہیں۔ اور عشق کے روایتی بیان کے ساتھ عصر حاضر کے مسائل سے آگاہ ہیں۔ وہ اپنے عہد کے ترجمان ہیں۔ انہوں نے عہد کے نشیب و فراز کا گہرا مطالعہ کیا اور انہیں اپنے اشعار میں ڈھالا۔ زندگی کا مطالعہ جمیل نظام آبادی کی شاعری کا اہم وصف ہے۔ ادب کو زندگی کا ترجمان کہا گیا ہے۔ شاعر اپنے عہد کی پیداوار ہوتا ہے۔ وہ ایک تخلیق کار ہوتا ہے۔ عام آدمی سے اوپر اٹھ کر وہ زندگی کے تجربات کو محسوس کرتا ہے اور انہیں شعر کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ جمیل نظام آبادی کی مخصوص لفظیات بھی انہیں صاحب طرز شاعر بناتی ہے۔ ان کے کلام میں زندگی‘پتھر‘آئینہ‘دریا ‘ سمندر جیسے الفاظ استعاروں کے طور پر استعمال ہوئے ہیں اور ان کی شناخت بن گئے ہیں۔ خود شاعر نے زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہیں اور اس کا اثر محسوس کیا ہے تب ہی تو زندگی کا بیان ان کی شاعری پر چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ ملاحظہ ہو ” حرف و سخن“ سے جمیل صاحب کے زندگی سے متعلق کچھ اشعار۔

            اپنے وعدے پہ میں قائم ہوں ابھی تک مگر                    زندگی تو نے مرا ساتھ نبھایا ہی نہیں

            کھلی کتاب سی ہے زندگی مگر پھر بھی                  اسے پڑھانے میں پڑھنے میں اک زمانہ لگے

            جانتے ہیں ہم یہ کتنی قیمتی ہے دوستو                   زندگی مشکل سہی پر زندگی ہے دوستو

            لوگ اوب جاتے ہیں چار دن کے جینے سے                    ہم گزار آئے ہیں زندگی قرینے سے

            بے بھروسہ ہے بے وفا ہے تو                زندگی تجھ سے پیار مشکل ہے

            جمیل صاحب نے پتھر کے استعارے کو زندگی کی مشکلات اور مسائل کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اور زندگی کا مثبت نظریہ رکھتے ہوئے انہوں نے مسائل کا عزم و حوصلے کے ساتھ سامنا کرنے کی بات کی ہے۔ ورنہ اکثر لوگ حالات کا شکوہ کرتے ہیں اور مایوسی کا اظہار کرتے ہیں جب کہ جمیل صاحب نے اپنی شاعری کے ذریعے سماج کو روشنی دکھائی ہے اور لوگوں کو حالات کا سامنا کرنے کے لئے تیار کیا ہے۔ پتھر سے متعلق جمیل صاحب کے اشعار ملاحظہ ہوں:

            عزم و ہمت اور جوانی دیکھئے                    ہوگیا پتھر بھی پانی دیکھئے

            ہر بار لگا آکے ترے ہاتھ کا پتھر                        ٹوٹا ہی نہیں پھر بھی مری ذات کا پتھر

            تم کو بننا ہے تو بن جائیے پتھر والے                   ناز ہے ہم کو کہ ہم لوگ تو ہیں سر والے

            لوگ پتھر اٹھائے پھرتے ہیں                 اور ہم سر اٹھائے پھرتے ہیں

جمیل نظام آبادی کی شاعری میں حالات کے کرب کے بیان کے ساتھ حسن و عشق کے روایتی موضوعات بھی فنکاری کے ساتھ ملتے ہیں۔ اور اس بیان میں شاعر کا اسلوب عاشقانہ ماحول پیدا کردیتا ہے۔جمیل صاحب کہتے ہیں۔

            نام مہندی سے لکھا لکھ کے مٹایا ہی نہیں                        ایسا لگتا ہے مجھے اس نے بھلایا ہی نہیں

            اس کی باتیں مرے کانوں میں ابھی بجتی ہیں      اس نے کاندھوں پہ رکھا سر تو اٹھایا ہی نہیں

            میں اکیلا ہی چلا پیار کی راہوں پہ جمیل                دو قدم ساتھ مرے کوئی بھی آیا ہیں نہیں

عشق اردو غزل کا اہم موضوع رہا ہے۔ اور یہ مجاز سے حقیقت تک سفر کراتا ہے۔ جمیل نظام آبادی جیسے پختہ کار شاعر نے بھی اس موضوع کو اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔ اور قاری کو اپنے ساتھ عشق کے صحراکی سیر کرائی ہے وہ کہتے ہیں:

            محبت تری دنیا کا عجب دستور ہوتا ہے                  جو دل کے پاس ہوتا ہے نظر سے دور ہوتا ہے

            اک پل بھی قرار مشکل ہے                  دل پہ اب اختیار مشکل ہے

            عشق میں تیرے اگر خاک ہوا ہوں میں بھی     ہاں مگر صاحب ادراک ہوا ہوں میں بھی

شاعر عشق حقیقی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اور وہ اپنے خالق کی قدرت کو پہچانتا ہے۔اوراپنے سچے رہبر و ہادی حبیب ﷺ کے سراپا کے بیان کو اپنا جزو ے ایمان سمجھتا ہے ۔ چنانچہ جمیل صاحب کی غزلوں میں جا بجا حمدیہ و نعتیہ اشعار بھی ملتے ہیں۔جیسے:

            ہواں پر بھی حکومت چلا رہا ہے کوئی               سمندروں میں بھی رستے بنارہا ہے کوئی

            وگر نہ دیکھئے میری بساط ہی کیا ہے                     میں لکھ رہا ہوں مسلسل لکھا رہا ہے کوئی

            ایسا پر نور سراپا تھا مرے آقا کا                        جن کا پر تو نہیں جن کہیں سایا ہی نہیں

جمیل صاحب کے اکثر اشعار حالات حاضرہ کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ اور قاری کو شعر پڑھتے ہیں ساری کیفیت معلوم ہوجاتی ہے۔ جیسے

           

            میں کیسے مان لوں ہندوستان سونے کی چڑیا ہے     مرے بچے کے ہاتھوں میں مٹی کا کھلونا ہے

            ایسے بھی لوگ ہیں جو بھوک سے بلکتے ہیں                      اور کچھ تو ایسے ہیں کھیلتے ہیں ہیروں میں

            دیکھو تو فلسطین کا وہ ننھا سپاہی                پتھر ہے کوئی ہاتھ ہتھیار نہیں ہے

            دس بیٹوں کو پالا ہے جواں میں نے کیا ہے                      اب کوئی مجھے پالنے تیار نہیں ہے

            اپنی بہو کے بارے میں کہنا نہیں مجھے                 مجھ کو یہ کہنا ہے مرا بیٹا بدل گیا ہے

جمیل نظام آبادی نے اپنے اشعار میں کہیں کہیں تلمیحات بھی استعمال کی ہیں اور سار ے تاریخی واقعہ کو ایک لفظ میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں:

            اس سفر نے سمت دی ہے تاریخ اسلام کو          وہ بہترنا تواں بھوکوں کا پیاسوں کا سفر

چھوٹی بحر میں جمیل صاحب نے روانی کے ساتھ اپنی بات پیش کی ہے۔ اور ان کی اس طرح کی غزلوں میں ترنم کا بھی احساس ہوتا ہے۔

            لوٹ آیا نہیں ہرا موسم                         چھوڑ کر جو گیا گیا موسم

            یہ میرا حوصلہ میرا ارادوہ ہے                             مرے رستے میں سایہ کر رہا ہے

            روشنی کی کسے ضرورت ہے                                بے سبب گھر جلا کے پچھتائے

            ایک پل بھی قرار مشکل ہے                              دل پہ اب اختیار مشکل ہے

            مجموعی طور پر جمیل نظام آبادی کا یہ شعری مجموعہ غزل کے شائقین کے لئے بیش قیمت ادبی سرمایے سے کم نہیں۔ کلام میں روانی اور الفاظ کا بر محل اور مناسب استعمال شاعر کے کمال کا غمازہے۔ اس شعری مجموعے میں شاعری کی دیگر اصناف نظم۔ رباعی وغیرہ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن یہ بھی ایک سلیقہ ہے کہ ایک مجموعہ صرف غزلوں پر مشتمل ہو۔ ”حرف و سخن“ کی اشاعت پر میں جناب جمیل نظام آبادی صاحب کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ اور امید کرتا ہوں کہ اچھی شاعری کے چاہنے والے اس مجموعہ غزل کا خیر مقدم کریں گے۔ اور ےہ بھی امید ہے کہ جمیل صاحب کی شاعری کا سفر یوں ہی جاری رہے اور وہ اپنی غزل کائنات سے اردو شاعری کا دامن وسیع کرتے رہیں۔

                                                           


افسانے ہزار ہیں

 

افسانے ہزار ہیں

افسانہ نگار   :  جمیل نظام آبادی

مبصر       :    ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

                                                                                   

            ہندوستان کی نو زائدہ 29ویں ریاست تلنگانہ میں فروغ اردو سرگرمیوں کے لئے جو اضلاع مشہور ہیں ان میں ایک ضلع نظام آباد ہے جہاں سے بے شمار شعر‘ا ادیب اور صحافی ابھرے ہیں ۔ گزشتہ چالیس سال سے یہاں اردو زبان کی آبیاری کے لئے جو شاعر ادیب اورصحافی مشہور ہوئے ہیں ان میں ایک اہم نام جمیل نظام آبادی کا ہے۔جنہوں نے اپنے نام کے ساتھ اپنے شہر کا نام جوڑتے ہوئے اردو کے فروغ کاحق ادا کردیا۔ وہ ایک نامور شاعر‘ادیب‘صحافی‘منتظم‘مدرس ہونے کے علاوہ ایک اچھے افسانہ نگار بھی ہیں۔ جمیل صاحب کی ادارت میں نکلنے والا رسالہ ماہنامہ” گونج“ اپنی اشاعت کے چالیس سال مکمل کرچکا ہے اس لحاظ سے وہ کہنہ مشق صحافی اور ادیب بھی ہیں ایک عرصہ تک وہ علاقائی اردو اکیڈیمی مرکز کے مینیجر رہے جس کی بنا اردو اخبارات و رسائل ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔ پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے کہ مصداق جمیل نظام آبادی نے اپنی ادارت میں گونج کے کئی خاص نمبر اور افسانہ نمبر بھی شائع کئے اور شاعری کی طرح فن افسانہ نگاری کے اپنے شوق کو بھی جلا بخشتے رہے۔

            جمیل نظام آبادی کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ”افسانے ہزاروں ہیں “کے عنوان سے2016میں شائع ہوا۔اس افسانوی مجموعے پر بات کرنے سے قبل جب ہم فن افسانہ نگاری کے فروغ پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ترقی پسند تحریک نے اردو افسانے کو فروغ دیا اور بیسویں صدی کے ہندوستان کے حالات اور ادب میں چل رہی تحریکوں کے سبب افسانہ نگاری کو فروغ ملا اور اپنے عہد کے مسائل کو افسانوں میں پیش کیا جانے لگا۔ زندگی کی بڑھتی رفتار نے ناول کے مقابلے میں افسانے کو مقبولیت عطا کی اور آزادی کے بعد سے آج تک افسانہ زندگی کے بیان کے سبب مقبول رہا۔ اکیسویں صدی کے اپنے مسائل ہیں۔ انسانی زندگی کی طرح کہانی کے رنگ بھی بدلے ہیں اور ہمارے افسانہ نگاروں نے اپنے عہد کا بغور مطالعہ کیا اور اسے فن افسانہ میں پیش کیا۔ جمیل صاحب چونکہ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں اور تجربات زندگی کو جس طرح وہ شعر کے سانچے میں ڈھال کر مضمون کو امر کردیتے ہیں اسی طرح انہوں نے اظہار کے سانچوں کے لئے فن افسانہ نگاری کو بھی اختیار کیا۔ چنانچہ ان کے افسانوی مجموعے ” افسانے ہزاروں ہیں“ میں ہمیں موضوعات کا تنوع ملتا ہے۔ اس افسانوی مجموعہ میں شامل افسانوں کے عنوانات ”اولڈایج ہوم کے قیدی‘ آج کے آدم وحوا‘ یہ کیسا درد ہے‘ میٹھا نیم‘ وفاوفا نہ رہی‘ شاطر ‘ راکھ میں دبی چنگاری‘ بے آواز لاٹھی‘آج کی دروپدی‘ وہ لڑکی‘ جب چڑیاں چک گئی کھیت‘ کیچڑ میں کھلا کنول‘ غبار ے دیکھتے رہے‘ صدیوں نے سزاپائی‘ کبھی کسی کومکمل جہاں نہیں ملتا‘ کٹھ پتلی‘ تمہیں کچھ نہیں آتا‘ میرا کونسا نمبر ہے‘ بہروپیہ‘ شادی مبارک۔وغیرہ ہیں۔

            جمیل نظام آبادی کے تحریر کردہ افسانوں کو جب ہم غور سے پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ایک فنکار کی طرح جمیل صاحب نے اپنے عہد کا مشاہدہ کیا اور ہمارے زندگی میں پیش آنے والے آئے دن کے حادثات اور واقعات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔ محبت‘نفرت‘جنس‘ مادہ پرستی‘اخلاقی اقدار کی شکست و ریخت‘رشتوں کا ٹوٹنااور جڑنا سماجی مسائل سب کچھ ان افسانوں میں ہے۔ افسانوی مجموعے کے پہلے افسانے اولڈایج ہوم کے قیدی میں جمیل صاحب نے والدین کے تئیں اولاد کی نافرمانی اور ان کی پرورش میں کوتاہی کے اہم سماجی مسئلے کی عکاسی کی ہے۔بس میں عید کے سفر پر جارہے اولڈ ایج ہوم کے مکین ریڈی صاحب اور رحمت علی درمیان میں بیٹھے مسافر کو اپنے حالات زندگی سناتے ہیں اور اس سے دریافت کرتے ہیں کہ اس کی اولاد کے احوال کیا ہیں اور وہ ان کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں تب افسا نہ نگاراپنے بے اولاد ہونے کے غم کو بیان کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بے اولاد ہونا غم ہے یا خدا کا شکر۔ اس جذبے کی عکاسی کرتے ہوئے جمیل صاحب کرداروں کی زبانی یہ خیالات پیش کرتے ہیں:

            ”رحمت علی صاحب نے دعائیہ انداز میں کہا” بھائی صاحب آپ کو صرف ایک غم ہے کہ آپ کو اللہ نے اولاد نہیں دی۔ آپ ہماری طرح اولاد کے ستائے ہوئے تو نہیں ہیں“۔ ریڈی صاحب نے کہا” آپ کا چھوٹا ہی سہی گھر تو ہے ہماری طرح اولڈ ایج ہوم کے مجبور تو نہیں ہیں“۔ بس ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی اور میں انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھتا ہوا بس سے اتر گیا۔(اولڈ ایج ہوم کے قیدی)

            جمیل صاحب نے افسانے کو جس موڑ پر ختم کیا وہی افسانہ نگار کی فنکاری ہے ۔ افسانے میں زندگی کے کسی ایک پہلو کو چبھن کے انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور اس افسانے میں ریڈی صاحب اور رحمت علی کے خیالات اور مضمون نگار کو اولاد کے ضمن میں لگنے والا جھٹکا یہ سوچنے پر مجبور کردیتا ہے کہ اولڈ ایج ہوم کے ان صاحب اولاد قیدیوں سے وہ بے اولاد ہی بھلا ہے۔

            افسانہ” آج کے آدم و حوا“ میں جمیل نظام آبادی نے ایک ماہر فن کار کی طرح موجودہ دور کے متوسط طبقے کے شادی بیاہ کے مسائل کو بیان کیا ہے جب کہ سسرال میں اکیلی خاتون آشا کام کے بوجھ تلے پریشان ہوجاتی ہے اور سسرال والوں کے تنگ کرنے پر اپنے مائیکے چلی آتی ہے۔افسانہ نگار رشتوں کو جوڑنے پل کا کام کرتا ہے اور آشا سے ملانے اس کے شوہر آدرش کو اس کے گھر بلاتا ہے۔ کافی دنوں سے شوہر سے دور رہ کر آشا کو شوہر کی یاد ستاتی ہے اور آدرش بھی اپنی بیوی کو کھونا نہیں چاہتا۔ سسرال سے لوٹ آئی آشا کیوں کر آدرش کے ساتھ جانے اور سسرال کی عارضی سختیوں کو جھیلنے تیار ہوجاتی ہے اس بات کو ایک فنکار کے طور پر پیش کرتے ہوئے افسانہ نگار اپنے افسانے کا انجام یوں کرتے ہیں:

            ” میں آشا کو سمجھاتا رہا۔مگر مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ ان دونوں کے کانوں تک میری آواز نہیں پہنچ رہی ہے کیوں کہ اب ان کی آنکھوں کی زبان نے اپنا کام شروع کردیا تھا۔ میں نے مناسب سمجھا کہ کچھ دیر کے لئے انہیں تنہا چھوڑ دوں۔ میں وہاں سے اٹھ آیا وہ دونوں کمرے میں تنہا رہ گئے۔ تھوڑی دیر بعد آشا باہر آئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ یہ مجھے لے جانا چاہتے ہیں۔ اس لئے میں واپس جارہی ہوں۔ پھر وہ اپنا سامان سمیٹنے اور پیک کرنے میں لگ گئی۔ “

            جمیل نظام آبادی نے جس انداز میں اس افسانے کا انجام کیا اس سے ان کی فن افسانہ نگاری پر عبور کا اندازہ ہوتا ہے۔ شادی کے بعد میاں بیوی کی دوری انہیں دنیاکے غم دور کرنے پر مجبور کردیتی ہے اور ایک دوسرے کا سایہ اور ساتھ انہیں دنیا کے اور رشتے داری کے عارضی غم سہنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ جمیل صاحب کا یہ افسانہ سماجی تعمیر کا ایک اہم افسانہ ہے۔ جس سے رشتوں میں آنے والی دراڑوں کو پر کیا جاسکتا ہے۔

            افسانہ ” یہ کیسا درد ہے“ میں فنکار جمیل صاحب ایک اسکول کی غریب بچی نادرہ کے جذبات کو پیش کرتے ہیں جو اپنی کتابیںکھوجانے کے سبب پریشان تھی اور آخر میں ایک ہمدرد انسان کی مدد سے نادرہ نامی غریب بچی کی مدد ہوجاتی ہے۔

            افسانہ ”کڑوا نیم“ میںجمیل نظام آبادی نے سماج کے ایک کڑوے سچ کو پیش کیا کہ سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے کیسے سماج کے کردار جسم فروشی جیسی لعنت کو بھی قبول کرلیتے ہیں۔ اور سچی محبت کا دھرم بھرنے والے کڑوے نیم کومیٹھا سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں۔ افسانے کی مرکزی کردار ثمینہ سرکاری ملازمت کے حصول کے لئے سپرنٹنڈنٹ کرشنا کے ساتھ شب گزاری کرتی ہے۔ اس سے قبل و ہ ناصر سے محبت بھی کرتی ہے لیکن ناصر کو ملازمت نہ ملنے پر وہ جسم فروش ثمینہ سے شادی کے لئے راضی ہوجاتا ہے۔سماج میں پیش آرہے یہ واقعات ہی ہیں جنہیں جمیل صاحب جیسے افسانہ نگار میٹھا نیم بنا کر پیش کرتے ہیں۔افسانہ ”وفا وفا نہ رہی“ میں جنس اور ہوس پرستی کی ایک اور مثال پیش کی گئی جس میں اپنے شوہر سعید کے لا علاج مرض کے دوران اس کی ہوس پرست بیوی شوہر کے کمرہ وارڈ میں ہی اس کی نیند کی حالت میں اپنے دیور سے منہ کالا کرتی ہے ایک رات نیند کی گولی نہ کھا کر جب شوہر کو زرینہ کے کالے کرتوت دکھائی دیتے ہیں تو وہ اصل مرض کے بجائے قلب پر حملے سے موت کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کے پاس پڑی نیند کی گولیاں ثمینہ کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑی کرتی ہیں۔افسانہ ”شاطر“ میں بھی ناجائز رشتوں کی پول کھولی گئی ہے جب کہ شوہر کے ملک سے باہر رہنے کے دوران بیوی اپنے دوست سے ناجائز تعلقات رکھتی ہے۔ افسانہ” راکھ میں دبی چنگاری “بے آواز محبت کو پیش کرتا ہے جب کہ ایک افسر اپنی محبت کھو دینے کے بعد غمزدہ ہوگیا تھا لیکن تبادلے کے بعد اس کی محبت ایک شادی شدہ خاتون کی شکل میں اس کے دفتر میں ملتی ہے تو وہ ایک مرتبہ پھر اس سے دور ہوجانا چاہتا ہے۔ تب اس کے محبوبہ کہتی ہے:

            ” میری خوش نصیبی ہے کہ میرا محبوب میرے سامنے ہے تو ہے۔ اور اب میں اسے جی بھر کر دیکھ تو سکتی ہوں۔ آپ پھر مجھ سے میرا یہ سکھ چھین لینا چاہتے ہیں۔ یہ آپ کی شرافت ہے یا بزدلی میں نہیں جانتی۔ میں اس کی جرات رندانہ پر حیرت زدہ رہ گیا۔ محبت کا یہ روپ میرے لئے نیا مگر جانفزا تھا۔ پھر دوسرے ہی دن میں نے اپنے ٹرانسفر کی درخواست واپس لے لی“۔

            جمیل صاحب کے افسانوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اکثر افسانوں میں وہ واحد متکلم کے طور پر پیش ہوتے ہیں۔ کبھی افسانے کے اہم کردار کے روپ میں یا کبھی مصلح کے روپ میں۔ اور افسانے کا انجام تک پہونچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔افسانہ ”بے آواز لاٹھی“ میں سماج کی ایک اور لعنت لڑکیوں کی بے راہ روی کو پیش کیا گیا جب کہ مولوی اکمل کی لڑکیاں بھاگ کر شادی کرتی ہیں جب انہیں ان کے ایک داماد کی جانب سے طعنہ ملتا ہے تو وہ چپ رہ جاتے ہیں جب اسی داماد کی لڑکی اور مولوی اکمل کی نواسی کے بھاگ کر شادی کرلینے کی خبر ملتی ہے تو مولوی اکمل رنجیدہ ہونے کے بجائے مطمئن ہوجاتے ہیں کہ اب دیکھو لڑکیوں کی بے راہ روی کا کرب کیا ہوتا ہے اس کے باپ کو محسوس ہونے دو۔ سماج کے اس رویے کو جمیل صاحب نے یوں ہی نہیں پیش کیا بلکہ اقدار کے شکست و ریخت کے اس ماحول میں یہ قصے اب چاروں طرف نظر آرہے ہیں۔ جن سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔افسانہ” آج کی دروپدی“ میں بھی مسلم طبقے کی لڑکیوں میں ہورہی بے راہ روی کو پیش کیا گیا ہے جس میں ایک لڑکی کی شادی کے دن بھی اپنے دوستوں سے عیاشی کو پیش کیا گیا ہے اور شب عروسی میں وہ اس لئے مطمئن ہوجاتی ہے کہ اس کے بھولے بھالے شوہر کو اس کے کالے کرتوت کا پتہ نہیں چلا۔ افسانہ نگار ایک مصور کی طرح سماج کے مختلف رنگ بڑی بے باکی سے پیش کرتے جاتے ہیں اور انہیں اس تصویر کشی میں سماج کا کوئی ڈر نہیں لگتا۔افسانہ ”وہ لڑکی“ ایک نفسیاتی افسانہ ہے جس میں ایک کم عمر طالبہ اپنے اسکول کی بڑی عمر کے استاد پر عاشق ہوجاتی ہے لیکن ایک خوشگوار موڑ پر وہ راہ راست پر آجاتی ہے۔” جب چڑیاں چگ گئی کھیت “میں ایک ایسے گھرانے کا قصہ پیش کیا گیا ہے جس میں ایک شخص ناجائز لڑکی رکھنے والی خاتون سے محبت کرتا ہے اور دوسری طرف اس کی لڑکی کو بھی اپنے دام میں گرفتار کر لیتا ہے اور وہ دونوں ناجائز حمل والی ہوجاتی ہیں۔ یہ افسانہ بھی سماج پر ایک طنز ہے۔

            جمیل نظام آبادی کے دیگر افسانے بھی بولڈ ہیں۔ انہوں نے عصر حاضر کے عجیب و غریب نفسیاتی اور جنسی جذبات پر مشتمل قصوں کو افسانوں کا روپ دیا ہے۔ ان کے افسانوں کے کردار ہمارے سماج کے جیتے جاگتے کردار ہیں۔ ان میں مذہب کی کوئی قید نہیں ہندو مسلم سب اس سماج میں اپنے کرتوت کے سبب سامنے آتے ہیں۔ جمیل نظام آبادی کے موضوعات اچھوتے ہیں جس سے ان کی گہری نظر کا پتہ چلتا ہے۔ افسانوں میں کردار نگاری مکالمہ نگاری اور زماں و مکاں بھر پور ہے۔ افسانوں کے پلاٹ میں کہیں جھول نظر نہیں آتا۔ منٹو کی طرح جمیل صاحب نے بھی جنس کو محظ تلذذ کے لئے نہیں بلکہ بہ طور فن پیش کیا ہے۔ واحد متکلم کی طرح وہ اکثر افسانوں میں خود اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ ان کے سماجی موضوعات پر لکھے افسانے بھی سماجی اصلاح میں اہم رول انجام دیتے ہیں۔ ان کے افسانے ترقی پسندی اور جدیدیت کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ اگر وہ افسانہ نگاری کا سفر جاری رکھیں تو مزید شاہکار افسانے پیش کرسکتے ہیں۔


ادبی و تہذیبی رپورتاژ



نام کتاب   :       ادبی و تہذیبی رپورتاژ

مصنف                   :        ڈاکٹر محمد ناظم علی

مبصر             :        ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی


          حیدرآباد دکن میں اردو کے زود نویس قلم کاروں میں ایک اہم نام ڈاکٹر محمد ناظم علی کا ہے۔جو ایک اچھے ادبی صحافی‘محقق‘نقاد اور سماجی دانشور ہیں۔تحقیقی و تنقیدی موضوعات پر ان کی اب تک نو کتابیں آئینہ عصر‘روح عصر‘عکس ادب‘حیدرآباد کے ادبی رسائل آزادی کے بعد‘پروفیسر آل احمد سرور فکر وفن‘ادبی بصیرت‘تنقید فکر‘افکار جدید اور نقش ہیں سب ناتمام شائع ہو کر مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔ اردو اخبارات و رسائل میں ان کے فکر انگیز مراسلے اور ادبی مضامین آئے دن زینت بنتے رہتے ہیں ۔ اردو دنیا نئی دہلی‘سب رس حیدرآباد اور دیگر رسائل میں ان کے مراسلے اور تبصرے بہ طور خاص شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ حیدرآباد اور تلنگانہ کی ادبی محفلوں میں وہ بہ طور خاص شرکت کرتے ہیں ۔مقالے پیش کرتے ہیں اور ادب کے کسی بھی موضوع پر عصری تقاضوں کو ہم آہنگ رکھتے ہوئے گفتگو کرتے ہیں۔ وہ شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کے ان فاضل طلباءمیں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اردو سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے سرکاری ملازمت حاصل کی۔ پبلک سرویس کمیشن کا امتحان کامیاب کرتے ہوئے ڈگری کالج میں اردو لیکچرار کے طور پر خدمات انجام دیں اور بہ حیثیت پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نظام آباد سے وظیفہ پر سبکدوش ہوئے اور اب مستقل طور پر حیدرآباد میں مقیم ہیں اور اپنی علمی و ادبی سرگرمیوں میںمصروف کار ہیں۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی زمانہ طالب علمی سے ہی ایک ذہین اسکالر رہے ہیں۔ انہوں نے تحقیق کے شعبہ میں بھی کارہائے نمایاں انجام دئے اور ”حیدرآباد کے ادبی رسائل آزادی کے بعد“عنوان پر ایک گراں قدر تحقیقی مقالہ لکھا۔ اپنے اس کام کے دوران انہوں نے حیدرآباد کے بیشتر ادبی رسائل کے پہلے شمارے کو کھوج کر قارئین کے روبرو پیش کیا۔ انہوں نے پروفیسر اشرف رفیع کے زیر نگرانی اردو کے نامور نقاد پروفیسر آل احمد سرور کے فکر و فن پر پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ لکھا اور بعد میں اسے کتابی شکل دی۔ ان کے اس کام کی ہند و پاک میں کافی پذیرائی کی گئی۔ اب ڈاکٹر محمد ناظم علی اپنی دسویں تصنیف ”ادبی و تہذیبی رپورتاژ“ کے ساتھ حاضر ہورہے ہیں۔ اس تصنیف میں انہوں نے حیدرآباد اور تلنگانہ کی مختلف جامعات میں منعقدہ ادبی سمیناروں ‘اردو اساتذہ کے لیے منعقدہ اردو ریفریشر کورسز اور مختلف ادبی تنظیموں کی جانب سے منعقدہ ادبی اجلاسوں کی رپورتاژوں کو یکجا کرکے پیش کیا ہے۔ انہوں نے رپورتاژ لکھنے کا یہ سلسلہ 1999سے شروع کیا اور اس کتاب میں حالیہ عرصے تک منعقدہ بعض اہم سمیناروں اور ادبی اجلاسوں کی روداد شامل ہے۔

          رپورتاژ نگاری کی صنف مغرب سے اردو ادب میں آئی اور ترقی پسند تحریک سے اس کو عروج حاصل ہوا۔اس صنف کی تشکیل میں صحافت اور ادب کا امتزاج شامل ہے۔ کسی بھی ادبی اجلاس کی روداد جس میں روداد نگارواقعات کو دلچسپ انداز میں اس طرح پیش کرے کہ روداد کے ساتھ لکھنے والے کا اسلوب بھی دلچسپی پیدا کردے اسے رپورتاژ کہتے ہیں۔کرشن چندر نے اردو کا ابتدائی رپورتاژ” پودے“ کے عنوان سے لکھا جس میں حیدرآباد میں منعقدہ ایک اردو کانفرنس میں بمبئی سے آئے ادیبوں کی شرکت کو افسانوی رنگ میں پیش کیا گیا تھا۔ اچھا رپورتاژ وہی سمجھا جاتا ہے جس میں روداد کے ساتھ افسانوی رنگ اور اسلوب کی چاشنی ہو۔رپورتاژ نگاری کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ قارئین کو کسی اجلاس کی روداد سے اس طرح واقف کرایا جائے کہ اسے پڑھنے کے بعد قاری کو احساس ہو کہ اس نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔ طمانیت کا احساس بھی رپورتاژ کی کامیابی کی ایک مثال ہے۔ اردو کے اخبارات و رسائل میں رپورتاژ کی اشاعت سے اس فن کو جلا ملی اور اب یہ باقاعدہ غیر افسانوی نثر کی صنف مانی جاتی ہے۔ڈاکٹر محمد ناظم علی کی اس تصنیف میںکل24ادبی اجلاسوں اور سمیناروں کے رپورتاژ شامل ہیں۔ ان کی رپورتاژ نگاری کی خاص بات یہ ہے کہ وہ جس اجلاس میں بھی شرکت کرتے ہیں اس کی روداد کو پہلے محفوظ کرتے ہیں اور پھر جزئیات نگاری کے ساتھ پیش کرتے ہوئے اپنی تنقیدی رائے بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے رپورتاژ نگاری میں ایک خاص پہلو نکالا کہ اردو اساتذہ کے لیے جو ریفریشر کورس منعقد ہوتے ہیں ان کی تفصیلات بھی رپورتاژ میں پیش کردیں۔ عام طور پر یونیورسٹی اور ڈگری کالج کے اساتذہ کے لیے تین ہفتوں کے ریفریشر کورسز کا اکیڈیمک اسٹاف کالج کی جانب سے انعقاد عمل میں آتا ہے جس میں ملک بھر کی جامعات اور کالجوں کے اساتذہ شرکت کرتے ہیں۔ ماہر اساتذہ مختلف ادبی موضوعات پر فکری و تحقیقی بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی نے اساتذہ کے لیے مخصوص ان ریفریشر کورسز کی یادوں کو رپورتاژ میں پیش کرتے ہوئے اردو اساتذہ کے علاوہ دیگر قارئین کی معلومات میں اضافے کی کوشش کی ہے۔ ان ریفریشر کورسز میں مختلف علاقوں کے اساتذہ ایک دوسرے سے تہذیبی تبادلہ خیال کرتے ہیں اور دوران کورس اپنے سوالات سے موضوع سے متعلق وسیع تر معلومات کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تفصیلات ڈاکٹر محمد ناظم علی کے رپورتاژوں کا حصہ ہیں۔ اردو یونیورسٹی حیدرآباد میںمنعقدہ تیسرے اردو ریفریرشر کورس کی روداد بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ناظم علی نے پروفیسر افضال صاحب کے حوالے سے لکھا کہ” اردو والوں کا خواب شرمندہ تعبیر مانو وسے ہوا۔لیکن ذمہ داران پر یہ گراں بہار ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دانش مندانہ و مفکرانہ انداز سے اس کے منصوبوں پر عمل آوری کریں۔مانو ایک مشن ہے اور اس کو منزل مقصود تک پہونچانا سب کی ذمہ داری ہے“ عثمانیہ یونیورسٹی صدی تقاریب کے ضمن میںمنعقدہ سمینار کی رپورٹ میں پروفیسر انور معظم کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ” اردو کا بنیادی سطح پر کام ہونا ہے۔جڑیں سوکھ رہی ہیں۔اس کی آبیاری ناگزیر ہے“ ۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی نے اردو کے دیگر کئی سمیناروں میں شرکت کی اور ان کی روداد کو دلچسپ انداز میں پیش کیا۔ چاہے وہ گری راج کالج نظام آباد کا سمینار ہو یا تلنگانہ یونیورسٹی‘مولانا آزاد اردو یونیورسٹی یا کسی اور کالج کا۔ ان سمیناروں کی روداد پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سمینار میں موضوع سے متعلق کون کونسے گوشوں پر مباحث ہوئے اور ان کا نتیجہ کیا رہا۔ڈاکٹر محمد ناظم علی کے یہ ادبی رپورتاژ گزشتہ دو دہائیوں میں دکن کی ادبی تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اور کافی عرصہ گزر جانے کے بعد جب ان رپورتاژوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حیدرآباد اور علاقہ تلنگانہ میں کون کونسے پروگرام ہوئے تھے۔ ان رپورتاژوں میں جن ماہرین کے بیانات کے اقتباسات شامل ہیں ان سے ادب کے بارے میں دانشوروں کی رائے کا پتہ چلتا ہے۔ اردو زبان کے مسائل اور ان کے حل سے واقفیت ہوتی ہے۔حیدرآباد میں جناب جلیل پاشا مرحوم کی جانب سے ہر سال منعقد ہونے والی کل ہند اردو کانفرنسوں کی روداد کا پتہ چلتا ہے۔یہ رپورتاژ اردو زبان و ادب تحقیق و تنقید کا اشاریہ ہیں جن کی بنیاد پر اردو کے اسکالر تحقیق و تنقید میں قدم بڑھا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی کا اسلوب نگارش سادہ اور رواں ہے وہ ایک اعتدال پسند اور حق گو نقاد کی طرح دوران گفتگو اپنی رائے بھی دیتے جاتے ہیں۔ جو موزوں اور بروقت لگتی ہے۔ڈاکٹر محمد ناظم علی نے رپورتاژ نگاری کی جس روایت کو اس تصنیف میں پیش کیا ہے اس سے امید ہے کہ اردو رپورتاژ نگاری کا دامن وسیع ہوگا ۔ ہر علاقے کے ادیب یا اردو اسکالرز اس طرح کے رپورتاژ پر مبنی کتابیں شائع کرتے رہیں تو اردو کے ادبی اجلاسوں کی تاریخ مرتب ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی کو ان کی اس منفرد کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش ہے۔امید ہے کہ ڈاکٹر محمد ناظم علی اسی طرح ادبی رپورتاژ پیش کرتے رہیں گے اور اردو زبان و ادب کے قاری کو ادبی اجلاسوں کی روداد سے استفادے کا موقع ملے گا۔ اردو اکیڈیمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہونے والی اس کتاب کو مصنف سے فون:9397994441پر رابطے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

 

                                                         

                                                          

خطیب دکن مولانا عتیق احمد قاسمی صاحب کے خطابات


    

            خطیب دکن مولانا عتیق احمد قاسمی صاحب کے خطابات


              مبصر: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

 

            خطیب دکن شیخ الحدیث حضرت مولانا عتیق احمد قاسمی صاحب دامت برکاتہم بانی جامعہ گلشن خیر النساءظہیر آباد نہ صرف حنائی سرزمین ظہیر آباد کے لیے بلکہ اہل دکن ‘کرناٹک اور مہاراشٹرا کے مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک ایسی نعمت ہیں جس کی جتنی بھی قدر کی جائے کم ہے۔مولانا ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں اور جس طرح کہا جاتا ہے کہ اللہ والوں کے کام میں برکت ہوتی ہے اور وہ کم وقت میں گراں قدر خدمات انجام دے جاتے ہیں یہی حال مولانا عتیق قاسمی صاحب کا بھی ہے وہ ناظم مدرسہ ہیں ۔ مسجد کے خطیب ہیں۔ ظہیر آباد میں فلاحی خدمات انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف مواقع پر اسفار کے ساتھ وہ دیہی و شہری علاقوں میں اپنے منفرد انداز خطابت سے لوگوں کی دینی ضروریات کی تکمیل کرتے ہیں۔ مولانا کی خاص بات یہ ہے کہ وہ لوگوں کی فہم مزاج اور ان کے سماجی و معاشرتی حالات کے لحاظ سے گفتگو کرتے ہیں اور اپنی بات کو واضح انداز میں اس انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان کی بات لوگوں کے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ مولانا ایک عالم دین ہونے کے ساتھ زمانے کے بہت بڑے نبض شناس ہیں اور فی زمانہ مسلمانوں میں دین سے دوری‘قران سے لا تعلقی اور سنتوں کو چھوڑنے کے ظلم عظیم کے خلاف وہ مسلسل آواز اٹھارہے ہیں ۔ اور بڑے ہی درد بھرے انداز میں لوگوں کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ قرآن سے اور صاحب قرآن پیغمبر انسانیت حضرت محمد مصطفی ﷺ سے اپنے رشتے کو جوڑ لیں اور آپ ﷺ کی شفاعت اپنے اوپر لازم کرلیں۔ مولانا کے خطابات اکثر ریکارڈ کئے جاتے ہیں اور لوگ انہیں بار بار سنتے ہیں۔ حال ہی میں کئے گئے مولانا کے سورة الکوثر کی تفسیر سے متعلق سلسلہ وار تین خطابات کو ان کی عام افادیت کے پیش نظر کتابی شکل دی جارہی ہے جس کا عنوان”سورہ کوثر کا پیغام امت مسلمہ کے نام“ ہے۔ اس مختصر سی کتاب میں جو تین بیانات شامل کئے گئے ہیں اس کی افادیت کے پیش نظر اس کتاب کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔مولانا نے اس سورہ کی تفسیر کے ضمن میں کئی پہلوں کو اجاگر کیا ہے۔ ایک تو اس سورہ کی تفسیر کے ساتھ اس پہلو کو شد و مد کے ساتھ بیان کیا کہ حضور اکرم ﷺکے تین بیٹوں کی کم سنی میں وفات کے بعد کفار مکہ نے جس طرح آپ ﷺ کو یہ کہہ کر ایذا پہنچائی تھی کہ آپ ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعدآپ کے لائے ہوئے دین کو عام کون کرے گا۔اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ کوثر نازل فرمائی جس میں ٓپ ﷺ کو کوثر دئے جانے کی بشارت دی گئی۔مفسرین نے کوثر کے مختلف معانی بیان کئے ہیں، مثلاً : حوض کوثر، دنیاوآخرت میں خیر کثیر،رسول اکرمﷺ کے پیروؤں میں کثرت وغیرہ۔ یہی خیر کثیر کی تفسیر اس کتاب کا حاصل ہے۔ مولانا نے اس جانب توجہ دلائی کہ مسلمان اگر قرآن سمجھ کر پڑھنے لگیں یا کم از کم ان سورتوں کے معنی و مفہوم سے واقف رہیں جو عام طور پر نماز میں پڑھی جاتی ہیں تو ان کی مفہوم کو یاد کرتے ہوئے نماز میں خشوع و خضوع لایا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی مولانا نے کہا کہ کفار مکہ کی ایذا پر ضرور اللہ کے حبیب ﷺ کو تکلیف ہوئی لیکن آپ ﷺ سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے اور آپ خاتم الانبیاءہیں۔ اور یہ کہ آپ کا لایا ہوا دین قیامت تک باقی رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہری طور پر عرب کے دستور کے اعتبار سے آپ کے بیٹوں کا سلسلہ جاری نہیں رکھا لیکن اللہ نے دکھا دیا کہ امت مسلمہ کی شکل میں آپ کے چاہنے والے ہی آپ ﷺ کے نام اور آپ ﷺ کے دین کو ساری دنیا میں عام کریں گے۔ چنانچہ مولانا نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ سچے عاشق رسول ﷺ بنیں۔ قرآن کو سمجھ کر پڑھیں اور اللہ تعالیٰ نے جس طرح امت مسلمہ کو لوگوں کی بھلائی کے لیے نکالی گئی امت قرار دیا ہم اس کے اصلی وارث کہلائیں۔ اپنے آپ کو دین کے علم سے آراستہ کریں۔ اپنے ایمان کو مضبوط بنائیں اور اسوہ رسول اللہ ﷺ سے اپنے آپ کو ڈھال لیں تو آج بھی حالات کے خلاف اللہ کی مدد آسکتی ہے۔ اور ہم حقیقی معنوں میں سورہ کوثر کے وارثین میں شمار کئے جاسکتے ہیں۔ امت محمدیہ ہونے کے ناطے اللہ کی ذات سے قوی امید ہے کہ حوض کوثر پر ہر مسلمان آپ ﷺ کے ہاتھوں جام کوثر نوش کرے گا اور اپنی بخشش کا سامان پائے گا۔ سورہ کوثر کی تفسیر کے ضمن میں مولانا عتیق احمد قاسمی صاحب نے مسلمانوں کو جو ہدایات دی ہیں وہ وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ورفعنا لک ذکرک کہہ کر آپ ﷺ کے نام کو ہمیشہ کے لئے جاری و ساری کردیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کہ چپے چپے میں اذان کے الفاظ کہے جاتے ہیں جس میں موذن گواہی دیتا ہے کہ محمد رسول ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن کریم آپ ﷺ کا ایسا معجزہ ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔ سنتوں کی شکل میں آپ ﷺ کی یاد رہتی دنیا تک قائم رہے گی اس طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ کوثر میں جو بشارت دی تھی وہ ہمیشہ کے لیے جاری و ساری ہوگئی۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے آپ کو دین اسلام سے وابستہ کرلیں۔ اور اپنی دنیوی اور اخروی کامیابی کا سامان کرلیں۔ مولانا عتیق احمد قاسمی صاحب کے یہ خطابات جس طرح کتابی شکل میں پیش ہورہے ہیں اگر انٹرنیٹ کی کسی ویب سائٹ کے ذریعے آڈیو کی شکل میں اور تحریر کی شکل میں مسلسل پیش ہوتے رہیں تو ٹیکنالوجی سے جڑی رہنے والی نئی نسل کی اصلاح کا بھی سامان ہوسکتا ہے۔ اور مولانا کا پیغام ظہیر آباد اور دکن سے لے کر دنیا کے چپے چپے میں عام ہوسکتا ہے۔ امید کہ جاتی ہے کہ مولانا کے خطابات اسی طرح عام ہوں اور اس کتاب کو بھی مقبولیت ملے گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا عتیق قاسمی صاحب سے جو کام لے رہا ہے اس کے ثمرات ساری دنیا میں جاری وہ ساری ہوں۔ اور ہدایت سے بھٹکی ہوئی انسانیت کی فلاح کا سامان ہو۔

 

                                                                                                خاکسار

                                                                                    حافظ ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

                                                                        صدر شعبہ اردو این ٹی آر ڈگری کالج محبوب نگر

Search This Blog