نام کتاب : حیدرآباد میں اردو ذرائع ترسیل و ابلاغ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں نام مصنف : مصطفی علی سروری نام مبصر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی




نام کتاب        :        حیدرآباد میں اردو ذرائع ترسیل و ابلاغ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں
نام مصنف      :        مصطفی علی سروری
نام مبصر                   :        ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

          ابلاغیات اپنی بات دوسروں تک پہونچانے کا عمل ہے ۔ اور موجودہ زمانے میں اس کئے لئے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا انٹرنیٹ اور سوشیل میڈیا کو استعمال کا جارہا ہے ۔ ابلاغیات کا ہم ذریعہ صحافت بھی ہے ۔صحافت ملک کا چوتھا ستون ملک کی عوام کی ذہن ساز ہوتی ہے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ صحافت پر الزام ہے کہ وہ کاروباری ہوتی جارہی ہے اور اپنے اصل مقصد خبروں کی ترسیل کی راہ سے بھٹکتی جارہی ہے حیدرآبادی اردو صحافت کو ہم اس لحاظ سے عالمی سطح کی معیاری اور مقبول صحافت قرار دے سکتے ہیں کہ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں یہاں سے عالمی سطح کے مقبول عام اردو اخبارات نکلتے ہیں۔ ان اخباروں میں سیاست کو میر کارواں کی حیثیت حاصل ہے ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد صحافت کے افق پر یہ ستارہ نمودار ہوا تھا محبوب حسین جگر‘ عابد علی خان اور اب زاہد علی خان اور عامر علی خان کے زیر نگرانی نکلنے والے اس اخبار کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے دور کے مسائل کو نہ صرف اجاگر کرتا ہے بلکہ ان مسائل کا حل بھی پیش کرتا ہے روزنامہ سیاست میں نئے دور میں ہر اتوار اپنا کالم لکھنے والے نئی نسل کے صحافی اور مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے وابستہ فعال استاد مصطفی علی سروری اسوسیٹ پروفیسر ہیں۔ سروری صاحب حیدرآباد کی نئی نسل کہ وہ صحافی ہیں جنہیں زمانہ طالب علمی سے ہی اردو صحافت سے دلچسپی رہی ۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی سی جے ایم سی جے کی تعلیم حاصل کی۔ نامور استاد صحافت رحیم خان صاحب کے شاگرد رہے۔سیاست اخبار نے انہیں اظہار خیال کا موقع فراہم کیا۔ اور ہر اتوار سماجی سیاسی اور حالات حاضرہ کے موضوعات پر بے لاگ تبصروں کے ساتھ شائع ہونے والے ان کے مضامین اردو اخبار کے قارئین میں بے حد مقبول ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے انہوں نے عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر خون کا عطیہ کیمپ کا کامیابی سے انعقاد عمل میںلایا۔ وہ حیدرآباد کے ٹی ٹی وی خانگی چینل پر مختلف ماہرین سے کیریر گائڈنس لیکچرز اور براہ راست سوال و جواب کے پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ انہوں نے پروفیسرافضل الدین اقبال مرحوم عثمانیہ یونیورسٹی کے زیر نگرانی ایم فل اردو کے لئے تحقیقی مقالہ ” حیدرآباد میں اردو ذرائع ترسیل و ابلاغ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں“ کے عنوان سے تحریر کیا۔ جو بعد میںترمیم و اضافہ کے ساتھ نوبل انفوٹیک حیدرآباد کے زیر اہتمام کتابی صورت میں شائع ہوا۔سروری صاحب کے مضامین کی طرح اردو حلقوں اور خاص طور سے اردو صحافتی حلقوں میں اس کتاب کی بے حد پذیرائی ہوئی اورحیدرآباد کی اردو صحافت کی تاریخ پر یہ کتاب اہمیت اختیار کر گئی۔ زیر تبصرہ کتاب میں مختلف ابواب جیسے ترسیل و ابلاغ۔ترسیل و ابلاغ کے ذرائع اور ان کی ترقی۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں حیدرآباد میں اردو صحافت۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں حیدرآباد میںریڈیو کی ترقی۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں حیدرآباد میںٹیلی ویژن کی ترقی۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں حیدرآباد میںذرائع ابلاغ کی ترقی اجمالی جائزہ۔ کے تحت معلومات اور خیالات پیش کئے گئے ہیں۔
            اکیسویں صدی بلا شبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے غلبے والی صدی ہے۔ اس دور میں ساری دنیا اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ کس طرح لوگوں کی توجہ اپنی جانب کرائی جائے۔ اپنے کاروبار کی تشہیر ہو ۔ لوگوں کی ذہن سازی سے انتخابات جیتے جائیں اور اپنا فائدہ ہو۔ پہلے خبریں ہوتی تھیں اب لوگ خبر تیار کر رہے ہیں اور اسے اپنے انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ یہ سب سلسلہ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں تیز ہوا اور دنیا میں کیبل نشریات کے ذریعے ابلاغیات کی دنیا میں انقلاب برپا کیا گیا۔خیال کے کامیاب اظہار کی ترسیل قرار دیتے ہوئے صاحب کتاب مصطفی علی سروری لکھتے ہیں کہ” اگر انسانوں کے درمیان ترسیل کے عمل پر پابندی عائد کردی جائے اور انہیں ترسیل کے ذرائع اختیار کرنے سے روک دیا جائے تو معاشرے کا نظام ٹھپ ہوجائے“۔اس کی اہمیت کے پیش نظر انہوں نے لکھا کہ اقوام متحدہ نے ترسیل کو قانونی حیثیت عطا کی ہے اور خود اظہار خیال کی آزادی والے ملک ہندوستان میں فریڈم آف انفارمیشن بل1997ءکے ذریعے ترسیل کو قانونی درجہ دیا گیا ہے۔ترسیل اور ابلاغیات کے تعارف کے باب میں انہوں نے تکینیکی طور پر ابلاغیات کی سائنس کو پیش کیا جس میں مرسل مرسل الیہ واسطہ باہمی ترسیل گروہی ترسیل اور عوامی ترسیل کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔اس کی بعد ابلاغیات کی ترقی اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاکے وسائل کا تعارف بیان کیا گیا ہے۔ذرائع ابلاغ اور نظریات کی ترویج کے ضمن میں فاضل مصنف نے لکھا کہ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں قومی یکجہتی اہم پہلو ہے اور اس کی برقراری کے لئے میڈیا کے رول کی ہر زمانے میں ضرورت محسوس کی گئی ہے۔زیر تبصرہ کتاب کے دوسرے باب میں ابلاغیات کے تین ذرائع صحافت پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی ترقی کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ مصنف نے وہ تمام حالات پیش کئے جب کہ ہندوستان میں بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں دوردرشن سے ٹیلی ویژن نشریات شروع ہوئیں اور 1990ءکی دہائی میں سٹلائٹ چینلوں خاص طور سے اسٹار زی سونی وغیرہ کے غلبے کے ہندوستانیوں پر اثرات کو اجاگر کیا گیا۔ٹیلی ویژن کی تجارتی اہمیت کے بارے میںمصطفی علی سروری لکھتے ہیں” ہندوستان ایک اہم تجارتی منڈی ہے جہاں اشیاءکی فروخت کے لئے کمپنیاں اہم فلمی ستاروں ‘نامور کھلاڑیوں اور خوبصورت ماڈلس کو اشتہارات کے لئے کروڑوں روپئے لیتے ہیں وہیں با صلاحیت نوجوان اشتہارات کے خوبصورت دلچسپ فقرے لکھ کر سرمایہ کما سکتے ہیں۔ اس طرح ٹیلی ویژن کی صنعت فراہمی روزگار کا اہم ذریعہ ہے“۔کتاب کے اصل تین ابواب میں پہلا باب حیدرآباد میں بیسویں صدی کی آخری دہائی میں صحافت کی ترقی سے متعلق ہے جس کی ابتدا حیدرآباد میں رسالہ طبابت حیدرآبادکی اشاعت سے ہوا۔ اس کے بعد آزادی سے قبل جاری ہونے والے مشہور اردو اخبار رہنمائے دکن‘ اور آزادی کے بعد جاری ہونے والے اردو اخبارات سیاست منصف اور ہمارا عوام کی خدمات کی تفصیلی ذکر کیا گیا ہے اردو اخبارا ت کس طرح کتابت کے دور سے کمپیوٹر کتابت کے دور اور سیاہ و سفید سے رنگین اشاعت میں داخل ہوئے اس کی تفصیلات بھی اس باب کا حصہ ہیں اردو اخبارت میں شائع ہونے والے مختلف معلوماتی سپلمنٹ اور مختلف ایام میں شائع ہونے والے مختلف خصوصی کالموں اور خبروں اداریوں کے علاوہ دیگر اہم معلومات سے متعلق تفصیلات کا احاطہ کیا گیا ہے۔اردو اخبار جب انٹرنیٹ پر دیکھے جانے لگے تو ان کے قارئین کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس ضمن میں مصطفی علی سروری جی ڈی ٹنڈن کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ” عالمی سطح پر انٹرنیٹ کے ذریعے اردو اخبارات کی پہنچ دیگر زبانوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔“ اردو صحافت کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا کہ سرکیولیشن کی کمی ‘کاغذ کی مہنگائی اور اشتہارات کے حصول میں دشواری سے اردو صحافت کی ترقی سست رہی ہے اور صحافیوں کو کم یافت دینے سے بھی معیاری صحافی اردو صحافت سے وابستہ نہیں ہو پائے۔باب کے آخر میں اردو صحافت میں شخصی کردار کشی کو انہوں نے نقصان دہ قرار دیا۔ کتاب کا اگلا باب میں حیدرآباد میں ریڈیو کی ترقی سے متعلق ہے۔ بیسویں صدی میں حیدرآباد میں دکن ریڈیو کی مقبولیت رہی اور آزادی کے بعد آل انڈیا ریڈیو سے اردو پروگرام نیرنگ کے مقبولیت کا ذکر کیا گیا ۔ ایک زمانہ تھا جب حیدرآباد کے ہر گھر سے نیرنگ پروگراموں کی آواز آتی تھی۔ نیرنگ سے وابستہ فنکاروں میں اظہر افسر‘قمر جمالی‘اسلم فرشوری‘جعفر علی خان‘شبینہ فرشوری‘معراج الدین‘اکبر علی خان اور ریڈیو پر پابندی سے خط بھیجنے والے سامع ماسٹر نسیم الدین نسیم کا ذکر نیرنگ کی پرانی یادوں کو تازہ کرتا ہے۔ نیرنگ میں چھوٹی چھوٹی باتیں ‘ ڈھولک کے گیت اور ہر اتوار کی شب پیش ہونے ولا ریڈیائی ڈرامہ اور حرف تابندہ مقبول پروگرام تھے۔نیرنگ کے علاوہ حیدرآباد ریڈیو سے صبح اور شام میں یواوانی پروگرام اور شا م میں اردو خبریں بھی نشر ہوتی تھیں جن کی تفصیلات اس باب میں پیش کی گئی ہیں۔اردو پروگراموں کے علاوہ دیگر زبانوں کے پروگراموں کی تفصیلات بھی اس باب کا حصہ ہیں ۔کتاب کے تیسرے اور آخری باب میں حیدرآباد میں بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ابلاغیات کے اہم ذریعہ ٹیلی ویژن کی ترقی کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ اردو پروگرام انجمن ‘مختلف مواقع پر پیش ہونے والے خصوصی پروگرام اور اردو خبروں کی نشریات کا ذکر کیا گیا ہے۔ فاضل مصنف نے لکھا کہ حیدرآباد دوردرشن کو ترقی دینے میں امتیاز علی تاج نے اہم رول ادا کیا اور نئی منزلیں اوراردو میگزین جیسے پروگراموں کے آغاز کی تفصیلات پیش کیں۔کتاب کے آخر میں مصنف کتاب مصطفی علی سروری نے ابلاغیات کے اہم ستون صحافت ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نئے زمانے کے اثرات کا جائزہ لیا۔ اردو اخبارات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی صحافت کے بجائے ترجمے کی صحافت کا رجحان اردو صحافت کے لئے اچھا نہیں ہے اور اردو اخبارات میں بے تحاشہ انگریزی الفاظ کے استعمال سے اردو زبان کا نقصان ہوگا۔ انہوں نے ریڈیو کے شاندار ماضی کے احیا اور ٹیلی ویژن پر نظریات سازی سے زیادہ حقائق کی پیشکشی اور ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں صحت مند ذرائع ابلاغ پر زور دیا۔
            مجموعی طور پر مصطفی علی سروری کی اردو کتاب ” حیدرآباد میں اردو ذرائع ترسیل و ابلاغ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں“اردو صحافت پر لکھی جانے والی کتابوں میں اہم اضافہ ہے اور ابلاغیات کی سائنس کو سمجھنے اور حیدرآباد میں ابلاغیات کے ارتقا سے واقفیت کے لئے اہمیت رکھتی ہے ۔ پیشہ صحافت سے وابستہ ہر صحافی کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ کتابوں کی خریداری ایک اہم مسئلہ ہے میں مصنف کو مشورہ دینا چاہوں گا کہ وہ اس کتاب کا مواد انٹرنیٹ پر آن لائن مفت کردیں۔ ویسے یہ کتاب خریدنے کے لئے امیزان انڈیا اور امریکہ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے اور مصنف سے حیدرآباد میں رابطہ کرتے ہوئے حاصل کی جاسکتی ہے۔ای میلsarwari829@yahoo,com

طلبہ کے تین دشمن مصنف:فاروق طاہر مبصر :ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی





طلبہ کے تین دشمن
مصنف:فاروق طاہر
مبصر :ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

            اردو میں تعلیمی نفسیات پر معلوماتی مضامین لکھتے ہوئے جو قلم کار ان دنوں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں مشہور ہیں وہ جناب فاروق طاہر صاحب متوطن حیدرآباد دکن ہیں جن کے تعلیمی نفسیات پر اردو زبان میں لکھے گئے معلوماتی و اصلاحی مضامین اردو اخبارات و رسائل اور قومی و بین الاقوامی ویب سائٹس پر شائع ہورہے ہیں۔ فاروق طاہر پیشے سے معلم ہیں۔ اور سائنس و آرٹس مضامین میں پوسٹ گرائجویشن کی ڈگریاں رکھنے کے ساتھ ساتھ قانون کی ڈگری بھی رکھتے ہیں۔ اور ان دنوں حیدرآباد سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ منصف کے ایڈیشن ”نئی منزلیں نئے قدم“ بروز ہفتہ کے علاوہ سہ روزہ دعوت نئی دہلی‘ جنگ پاکستان اردو ڈائجسٹ لاہور اور دیگر اخبارات و رسائل میں پابندی سے شائع ہو کر اردو حلقوں میں مقبول ہورہے ہیں۔ تعلیمی نفسیات کے موضوع پر ان کی دو کتابیں موثر تدریس اور المعلم شائع ہوچکی ہیں اور ان کے مضامین کا تیسرا مجموعہ ” طلباءکے تین دشمن“ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس مجموعے کی رسم اجرا تقریب 30ڈسمبر کو سالار جنگ میوزیم سمینار ہا ل حیدر آباد میں منعقد ہوئی۔مولانا آزاد قومی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے کتاب کا رسم اجرا انجام دیا۔ تقریب میں پروفیسر وہاب قیصر‘ڈاکٹر عابد معز‘پروفیسر فاطمہ پروین‘ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد‘خالد قیصری اور اسلم فرشوری نے فاروق طاہر کی مضمون نگاری پر اپنے گراں قدر خیالات کا اظہار کیا۔طلباءکے تین دشمن کتاب میں فاروق طاہر صاحب کے تعلیمی نفسیات پر لکھے گئے مضامین طلبہ کے” تین دشمن‘طلبہ خوف کا ہر گز غم نہ کریں‘طلبہ کا تنا پر قابوعظیم کامیابیوں کا سرچشمہ‘مایوس نہ ہوں امید کی جلومیں‘سستی ایک دلکش دشمن‘تعمیر حیات اور قوت فیصلہ‘آرائش زندگی میں تنظیم و ترتیب کی اہمیت‘تساہل چھوڑئیے اب وقت عمل ہے‘طلبہ کامیابی کے لئے سونا اور جاگنا بھی سیکھیں‘ذہنی تحدیدات خودی میں ڈوب کے پاجا سراغ زندگی‘غصہ ہو اگر قابو تو طاقت ورنہ تذلیل کا ساماں‘احساس کمتری کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میںوغیرہ شامل ہیں۔ مضامین کے عنوانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاروق طاہر کو تعلیمی نفسیات پر عبور حاصل ہے اور اردو میں انہوں نے اپنے مطالعے کو اسلامی فکر کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں انہوں نے تعلیمی نفسیات کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فروبل کا یہ قول نقل کیا ہے کہ” استاد ایک باغبان‘ بچہ ایک پودا اور اسکول کی حیثیت ایک باغ کی ہوتی ہے“ ۔ موجودہ تعلیمی منظر نامہ صرف معلومات کی فراہمی اور انہیں امتحان کے ذریعے دوبارہ پیشکشی پر کامیابی ہی رہ گیا ہے۔ جب کہ اچھی تعلیم وہی کہلاتی ہے جو انسان کو عمل پر راغب کرے اور انسان کی کردار سازی کے ساتھ سماج کی تعمیر ہو۔ آج تعلیم تجارت ہوگئی ہے اور اس تجارت میں سرمایہ دار طبقہ اپنا سرمایہ لگا کر اس سے دگنا تگنا وصول کرنا چاہتا ہے اس لئے اقدار تعلیم سے دور ہوتے جارہے ہیں اسی کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تعلیمی نفسیات سے عدم واقفیت یا عدم دلچسپی سے طلباءکے ساتھ غلط برتا اور تعلیم کے تئیں طلباءکی بے رخی والدین اور سماج کی جانب سے طلباءپر بڑھتے دبا کے سبب بھی طلباءپر تعلیم کے نام پر نتا اور کشمکش عام ہے۔ پھر تعلیم کے ساتھ اقدار چلے جائیں تو ایسی تعلیم صرف ڈگریوں کے حصول تک رہ جائے گی اس سے فرد اور سماج کو فائد ہ نہیں ہوگا۔ ان حالات میں اسلامی فکر اور حالات حاضرہ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے موضوع تعلیم کے مغربی افکار کو اردو میں سنجیدہ اور رواں انداز میں مسلسل پیش کرنے کا اہم فریضہ فاروق طاہر پیش کر رہے ہیں۔ اپنی کتاب کی اشاعت کی غرض بیان کرتے ہوئے کتاب کے پیش لفظ میں فارق طاہر لکھتے ہیں کہ” طلبہ کے تین دشمن کے ذریعے جہاں طلبہ کو متحرک کرنے کی کوشش کی گی ہے وہیں والدین اور اساتذہ کو جدید تعلیمی نفسیات کی روشنی میں تعلیم و تربیت کے زرین اصولوں سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب کے ذریعے اس بات کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جدید تعلیمی نفسیات کے عنوان پر جو کچھ اچھے اور مثبت نظریات پیش کئے جارہے ہیں وہ سب اسلامی تعلیمات سے اخذ شدہ ہوں۔ بیشک نبی اکرم ﷺ کا اسوہ ہر انسان کے لئے ایک کامل نمونہ ہے“۔ڈاکٹر مشتاق احمد آئی پٹیل پروفیسر شعبہ تعلیمات اردو یونیورسٹی ” حرف چند“ کے عنوان سے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ” دنیا کو فتح کرنے کے لئے اپنی ذات کو فتح کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے ۔”طلبہ کے تین دشمن“ تسخیر ذات کے ذریعے تسخیر کائنات کا ایک بے مثال فارمولہ ہے۔۔ فاروق طاہر کے قلم سے نکلی یہ تحریریں ملت کی تعمیر میں ان شاءاللہ بہت مفید و سود مند ثابت ہوں گی۔قوم وملت کی تعمیر میں سنجیدگی سے مصروف فاروق طاہر جیسے اساتذہ کی موجودگی ملت کی تعمیر اور درخشاں مستقبل کی میری امیدوں کو مزید روشن کردیتی ہیں“۔ڈاکٹر عابد معز مشیر اردو مرکز برائے فروغ علوم اردو یونیورسٹی و نامور مزاح نگار ”حرف ادراک“ کے عنوان سے فاروق طاہر کی کتاب’ ’طلبہ کے تین دشمن“ پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طرا ز ہیں کہ” تعلیم و تربیت درس و تدریس اور رہنمائی اور رہبری کے تلخ گوشوں پر فاروق طاہر نے اپنے قلم سے جس طرح روشنی ڈالی ہے اس سے یہ بات مترشح ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ابھی ایسے باکمال ‘اعلیٰ صلاحیتوں کے افراد موجود ہیں جو ہر گھڑی طلبہ کے بہتر مستقبل کے لئے فکر مند رہتے ہیں“۔
            ’طلبہ کے تین دشمن“ کتاب کا پہلا مضمون بھی اسی عنوان پر ہے۔ فارق طاہر نے اس کتاب کی تزئین خود کی ہے اور ہر مضمون کے پہلے صفحہ پر موضوع کی مناسبت سے قرآنی آیت کا حوالہ ‘ حدیث یا دعا پیش کی ہے۔ چنانچہ اس مضمون کی مناسبت سے فاروق طاہر نے خطبہ نکاح کے دوران پڑھی جانے والی حدیث کا ایک جملہ” ہم اپنے نفس کی شرارتوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں“ پیش کیا ہے۔ تعلیم ہو یا زندگی کا کوئی بھی عمل اگر ہماری نظر اپنے اسلامی سرمائے پر نہ ہو تو ہم حقیقی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ۔ فارق طاہر صاحب نے یہ جدت کی کہ تعلیمی نفسیات جیسے صریح سائنسی مضمون کو انہوں نے اسلامی فکر کے پس منظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہیں۔ طلبہ کے تین دشمن کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے فطری جبلتی دشمن جیسے خوف‘تنا‘احساس مایوسی و محرومی وغیرہ۔ حاصل کردہ دشمن جیسے غصہ ‘ذہنی تحدیدات اور احساس کمتری اور دلکش و خوش نما دشمن جیسے سستی‘ کاہلی اور تنظیم و ترتیب کے فقدان کو پیش کیا ہے۔ان مسائل کی نشاندہی کے بعد فارق طاہر ماہرین تعلیم کے تجربات ہماری تہذیبی زندگی کے واقعات اور قرآن و حدیث کی ہدایات سے ان مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ طلباءکو وقت کی قدر کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے اس مضمون میں فارق طاہر لکھتے ہیں کہ

©

©” طلبہ ایام طالب علمی میں صرف حصول علم کو مد نظر رکھیں فضول اور لایعنی افعال سے اجتناب کریں اگر یہ زمانہ خرافات کی نظر ہوگیا تب دنیا کی کوئی بھی طاقت ان کو ذلت و رسوائی اور ناکامی سے نہیں بچا سکتی۔ حصول علم میں وقتی آرام و آسائش لطف و سرور بہت بڑی رکاوٹ ہوتے ہیں اگر طلبہ ان رکاوٹوں سے خود کو بچانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تب ان کو مستقبل کی تمام خوشیاںاور راحتیں میسر آتی ہیں۔۔۔ طلبہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ وہ سنت اللہ اور قانون فطرت کا احترام کریں اور ہر پل اپنے آپ کو اللہ کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن رکھیں۔اگلے مضمون میں طلبہ میں خوف آنے کی وجوہات بیان کرنے کے بعد اسے دور کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے فاروق طاہر لکھتے ہیں کہ” طلبہ صرف ہاں کہنے کی عادت نہ ڈالیں بلکہ نہ کہنا بھی سیکھ لیں“۔ انہوں نے لکھا کہ اپنی کمزوریوں کو پہچاننا اور چھوٹی چھوٹی کمزوریوں سے بڑی کمزوریوں تک قابو پانے کا مسلسل عمل کرنا ضروری ہے۔تنا پر قابو پانے پر مبنی مضمون کے ذیل میں انہوں نے قرآن کی آیت ” الا بذکر اللہ تطمین القلوب“ ( یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے“)۔ کی نشاندہی کرتے ہوئے مضمون کی تفصیلات پیش کی ہیں۔ تنا عہد حاضر کی بڑی روحانی بیماری ہے جس کا بد ترین انجام خودکشی کی لعنت ہے۔ انسان معاشرے کے بڑھتے تقاضوں کو اپنے آپ پر ذبردستی لاگو کرتے ہوئے ان تقاضوں کی عدم تکمیل پر تنا کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسان جب یہ سوچنے لگے کہ حالات تو آتے ہیں لیکن ان حالات سے نکلنے کے لئے جہد مسلسل کے ساتھ اللہ پر بھروسہ رکھنا ضروری ہے تب تنا سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ چنانچہ فاروق طاہر طلبہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنی تعلیم اور پڑھائی پر سنجیدگی سے توجہ مرکوز کریں اور نتائج کو اللہ کے سپرد کردیں۔ طلبہ کا ایمان و یقین اس وقت اکسیر کا کام کرتا ہے۔مایوس نہ ہوں امید کی جلو میں مضمون کے تحت قرآن کی آیت ” لا تقنطو من رحمت اللہ“ ( اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں) کو پیش کیا گیا ہے۔ مایوسی کی علامات بیان کرتے ہوئے فاروق طاہر نے لکھا کہ طلبہ کسی بھی ناگہانی اور خراب صورتحال کے لئے خود کو مورد الزام گردانتے ہیں۔ اس کے علاوہ جسمانی شکایات کے اوہام جیسے مسلسل درد‘پیٹ کے درد کی شکایت طلبہ اور بڑوں میں احساس نا امیدی اور مایوسی پیدا کرتی ہے۔ محبت و شفقت سے محرومی‘امتحان میں ناکامی اعلی نشانات رینک اور گریڈ کے حصول میں ناکامی طلبہ کو ذہنی اذیت سے دوچار کرنے کے ساتھ ناامیدی و مایوسی کا بھی شکار کردیتی ہے۔ مایوسی کے علاج کے لئے فاروق طاہر طلبہ کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ مثبت سوچ کو اپنائیں ۔ اساتذہ سے اپنے مسائل پر گفتگو کریں ۔ ہمیشہ مصروف رہنے کی کوشش کریں۔مقام کی تبدیلی‘سیر و سیاحت‘کھیل کود اورہلکی ورزش بھی مایوسی کو دور کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ فاروق طاہر نے مختلف مثالوں اور واقعات کے مدد سے مایوسی کی کیفیات اور اس سے بچنے کی تدابیر بیان کی ہیں۔سستی اور کاہلی سے بچنے کے ضمن میں فاروق طاہر نے پھلوں کے استعمال اور گھر پر بنی سادہ اور تغذیہ بخش غذاں کے استعمال اور حرکت و عمل کی ترغیب دی ہے۔تعمیر حیات اور قوت فیصلہ مضمون میں فارق طاہر نے نوجوانوں میں فیصلہ سازی کے فقدان اور خود کے فیصلے لینے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ حالات و تجربات کا مشاہدہ اور اساتذہ اور بزرگوں سے مشورے کے ساتھ ساتھ انہوں نے نوجوانوں کو ترغیب دی کہ وہ مثبت سوچ کے ساتھ فیصلے کریں اور ان پر جہد مسلسل کے ساتھ کام کریں تو نتائج اچھے حاصل ہوں گے اگر ناکامی ہو بھی تو اس سے تجربات حاصل کریں۔کتاب کے دیگر مضامین بھی طلباءکے مسائل اور ان کے حل پر مرکوز ہیں۔ کتاب چونکہ طلباءکے مسائل سے متعلق ہے اس لئے اس میں والدین اور اساتذہ کا تذکرہ ضمنی طور پر کیا گیا ہے۔ فارق طاہر نے اپنے موضوع کو بیان کرنے کے لئے اشکال اور جدول بھی پیش کئے ہیں ۔ ان مضامین کی تیاری کے لئے انہوں نے مطالعہ قرآن کو اہمیت دی اور دیگر اسلامی کتابوں ‘ مختلف تفاسیر قرآن سیرت النبی ﷺ کی کتابوں اور تعلیمی نفسیات پر اردو اور انگریزی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔ جس سے ان کے گہرے مطالعے کا اندازہ ہوتا ہے۔ کتاب کے پچھلے ٹائٹل پر نذیر الحسن کراچی کا تعارفی مضمون کتاب کی زینت میں اضافہ کرتا ہے۔ فاروق طاہر کی یہ کتاب طلباءکے لئے انتہائی مفید ہے۔ ایک ایسے دور میں جب کہ طلباءاردو زبان سے نا بلدہیں اور اپنی نصابی کتابوں کو ہی مکمل طور پر نہیں پڑھ رہے ہیں فاروق طاہر کی اس کتاب سے طلبہ کے استفادے کے لئے ضروری ہے کہ تمام اساتذہ اس کتاب کے مضامین کو کمرہ جماعت میں با آواز بلند پڑھوائیں اور اس کے مشمولات پر طلبہ کے اشکالات اور رائے کو حاصل کریں۔ فاروق طاہر صاحب سے میں نے کہا تھا کہ اخبار کی عمر ایک دن ہوتی ہے اور بہت سے گھروں میں اخبار نہیں آتے اس لئے عصری تقاضوں کے مد نظر ان مضامین کو انٹرنیٹ کے بلاگ پر پیش کیا جائے اور ممکن ہو تو ان مضامین کے آڈیو یوٹیوب پر بھی پیش کریں تاکہ طلبہ کہیں بھی اپنے اسمارٹ فون پر ان مضامین کے اندر پوشیدہ باتوں کو سن کر سمجھتے ہوئے اپنے زندگی میںعمل کرسکیں۔ تمام اساتذہ برادری کی ذمہ داری ہے کہ اس کتاب کو اور فاروق طاہر کے مضامین کو طلبہ تک پہونچائیں۔ تعلیمی اداروں میں ہونے والے انعامی مقابلوں میں اس طرح کی کتابیں طلبہ میں انعام کے طور پر دی جائیں۔ اور طلبہ سے بھی ان موضوعات پر مضامین لکھنے کی ترغیب دلائی جائے۔ تعلیمی نفسیات پر آسان اردو میں کتاب ’طلبہ کے تین دشمن“ کی اشاعت اور مضامین کی اشاعت پر مصنف فاروق طاہر کو مبارک باد پیش ہے۔ کتاب کی اشاعت ہدی پبلیکیشنز حیدرآباد نے انجام دی ہے۔ اغلاط سے پاک کتابت‘عمدہ طباعت ‘آئی ایس بی این نمبر کے ساتھ شائع ہونے والی اس اہم کتاب کی قیمت 120/.روپئے رکھی گئی ہے جو مصنف کے فون نمبر9700122826‘ہدی بک ڈپو پرانی حویلی اور دیگر مقامات سے حاصل کی جاسکتی ہے۔






نام کتاب : فکر نو(تعارفی تبصرے و تنقیدی جائزے) مصنف : ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل مبصر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی


نام کتاب    :        فکر نو(تعارفی تبصرے و تنقیدی جائزے)
مصنف                  :        ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل
مبصر            :        ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

            اردو زبان و ادب کے لئے یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ ادھر کچھ عرصے سے اردو کے نئے ادیب اور قلم کار اپنی تحریروں سے ادب کی دنیا میں شناخت بنارہے ہیں۔ اردو کے زوال کا نوحہ پڑھنے والے تو بہت ہیں لیکن اردو زبان سے اپنی اٹوٹ وابستگی اور اس زبان میں لکھنے پڑھنے والوں میں نئی نسل کی شمولیت اردو کے روشن مستقبل کی نوید سناتی ہے۔ جنوبی ہند میں حیدرآباد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ شہر اردو اب ساری دنیا میں اردو زبان کی بقاءاور ترویج کا اہم مرکز مانا جارہا ہے۔ حیدرآباد کی ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اپنے عہد کے شعر و ادب سے اپنی گہری وابستگی رکھنے اور اس کی سرگرمیوں کو اپنی تحریروں رپورتاژ‘ادبی تبصروں اور تحقیقی و تنقیدی مضامین سے اجاگر کرنے والوں میں اب ایک جانا پہچانا نام ڈاکٹر محمدعزیز سہیل کا ہے۔ جامعہ عثمانیہ سے اردو میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے حیدرآ باد اور ریاست تلنگانہ و آندھرا کے ادبی منظر نامے میں اپنی شرکت کو یقینی بنایا۔ جامعات میں ہونے والے اردو سمیناروں میں شرکت اور ان کے رپورتاژ کو کامیابی سے پیش کرنے کے علاوہ انہوں نے اردو شعراءاور ادیبوں کی کتابوں پر سلسلہ وار ادبی تبصرے لکھنا شروع کئے۔ ان کے تبصرے روزنامہ اعتماد‘روزنامہ منصف کے علاوہ ہندوستان کے اہم ادبی رسائل اور اردو کی اہم ویب سائٹوں پر شائع ہوتے رہے۔ ڈاکٹر محمد عزیز سہیل کی اب تک سات(07 ) تصانیف شائع ہوچکی ہیں۔ ان کی پہلی تصنیف2014ءمیں شائع ہوئی تھی اور اب وہ ”فکر نو “ کے عنوان سے اپنی آٹھویں تصنیف کے ساتھ حاضر ہورہے ہیں تین سال میں آٹھ تصانیف کی رفتار دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ وہ اردو کے نوعمر زود نویس ادیب ہیں۔ امید ہے کہ ان کے قلم کی سمت و رفتار یوں ہی جاری و ساری رہے۔ ان کے ادبی کتابوں پر تبصروں کی پہلی کتاب” میزان نو“ کے عنوان سے 2015ءمیں شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہے۔ زیر نظر کتاب میں بھی نثری و شعری تصانیف اور ادبی رسائل پر کل(29

µ) تبصرے شامل ہیں۔ جن شخصیات کی کتابوں پر ڈاکٹر محمد عزیز سہیل نے تبصرے کیے ہیں ان میںسید رفیع الدین قادری زور۔ڈاکٹر رف خیر۔ڈاکٹر محمد ناظم علی۔ڈاکٹر محمد ابرارالباقی۔ڈاکٹر عابد معز۔ڈاکٹر فاضل حسین پرویز۔ڈاکٹر عزیز احمد عرسی۔ڈاکٹر ضامن علی حسرت۔ڈاکٹر سید اسرار الحق سبیلی۔ڈاکٹر دانش غنی۔شمیم سلطانہ۔ ڈاکٹر مختار احمد فردین۔رحیم انور۔ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی۔ڈاکٹر آمنہ آفرین۔عاصمہ خلیل۔سلیم اقبال۔محمد مظہر الدین۔جمیل نظام آبادی۔حلیم بابر۔راشد احمد۔سوز نجیب آبادی۔محبت علی منان۔چچا پالموری۔ڈاکٹر خواجہ فرید الدین صادق اور اقبال شانہ کے نام شامل ہیں۔ڈاکٹر محمد عزیز سہیل کی جانب سے تبصرہ کی گئی کتابوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے تبصرہ نگاری کے لئے ہمہ جہت ادبی و شعری اصناف کا انتخاب کیا ہے۔ ان کتابوں میں تحقیق و تنقید‘فکشن‘بچوں کا ادب‘صحافت‘ سائنس و ٹیکنالوجی‘صحت‘ خاکہ نگاری و انشائیہ نگاری‘ رسائل ‘ شاعری میں سنجیدہ و مزاحیہ شاعری وغیرہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد عزیز سہیل نے جن شعرا اور ادیبوں کی کتابوں پر تبصرے کئے ہیں وہ حیدرآباد اور علاقہ دکن کے نامور شعرا اور ادیب ہیں۔ نئے اور پرانے محقق اور نقاد ہیں ۔

            ”فکر نو“ کتاب میں پیش گفتار کے نام سے ڈاکٹر وصی اللہ بختیاری صاحب نے ڈاکٹر عزیز سہیل کی تبصرہ نگاری کے بارے میںلکھا کہ ” کسی مبصر کے لیے واقعی یہ اعزاز کی بات ہے کہ اس کے تبصرے استنادی حیثیت کے حامل ہوں اور قبول عام اور پسندیدگی حاصل کریں“۔فیس بک پر ” درون خانہ کا سلسلہ“ کے تحت اپنے تجربات کو دلچسپ انداز سے پیش کرتے ہوئے شہرت پانے والے نامور شاعر رف خلش کے فرزند معظم راز” تقریظ برائے فکر نو“ میںلکھتے ہیں کہ برادرم عزیز سہیل پیشہ تدریس سے وابستگی کے باوجود عصری تیکنالوجی کے طفیل تیزی سے فروغ پانے والے سوشل میڈیا میں بھی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لیے ہمہ تن مصروف و فعال رہے ہیں۔اس کتاب میں شامل بیشتر تبصرے سوشل میڈیا اور کئی ویب سائٹس پر شائع ہونے کے سبب دنیا بھر کے اردو قارئین تک رسائی حاصل کرچکے ہیں۔
            کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر محمد عزیز سہیل نے تبصرہ نگاری کے فن پر اپنا تحقیقی مضمون پیش کیا ہے جو ان کی کتاب کا مقدمہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ تبصرہ نگاری تنقید کی ہی ایک قسم ہے جس میں کسی کتاب کے تعارف اور اس کے محاسن و معائب کو تبصرہ نگار اس طرح اجاگر کرتا ہے کہ ایک مضمون میں ساری کتاب کا جامع تعارف پیش ہوجاتا ہے۔ اکثر تبصرہ نگاروں نے تعارفی تبصرے لکھے جس سے قاری کو کتاب پر رائے قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ مرزا غالب نے اپنے دور میں کچھ شعرا اور ادیبوں کی کتابوں پر تقاریظ لکھی تھیں۔ اگر تبصرہ کتاب میں شامل ہوجائے تو وہ پیش لفظ کے طور پر کتاب کا تعارف پیش کردیتا ہے اور اگر کتاب کی اشاعت کے بعد الگ سے شائع ہو تو قاری کو کتاب تک پہونچنے اور اس کے مطالعے کے لئے راغب کرتا ہے۔ اردو کی کچھ اہم کتابیں تبصروں کی وجہہ سے ہی مقبول ہوئی ہیں کیوں کہ قاری کتاب کی نوعیت تو نہیں جانتا لیکن تبصرہ پڑھنے کے بعد وہ کتاب کے مشمولات سے واقف ہوکر انہیں پڑھنے پڑھنے کے لئے راضی ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر محمد عزیز سہیل کی اس کتاب ” فکر نو“ میں شامل ہمہ رنگی کتابوں کے تبصروںپر ایک نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جس طرح ایک تبصرہ ایک کتاب کا تعارف کراتا ہے اسی طرح تبصروں پر مشتمل یہ کتاب اردو کی تقریباً تیس کتابوں کا بہ یک وقت تعارف پیش کردیتی ہے۔
            ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل کے تبصرے تعارفی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ ایک ایسے دور میں جب کہ اردو کے ادیب قاری کی عدم توجہی کا شکوہ کرتے ہیں تبصرہ نگار کے فریضہ کے طور پر فاضل تبصرہ نگار نے سبھی کتابوں کا گہرائی سے مطالعہ کیا ۔ صاحب کتاب اور کتاب کے مشمولات کا تعارف پیش کیا۔ کتاب کی خوبیوں پر زیادہ نظر ڈالی اور کتاب کی خامیوں کو سرسری طور پر اجاگر کرتے ہوئے ادب کی دنیا میں کتاب کے مقام کا تعین کیا۔ پروفیسر مرزا اکبر علی بیگ فن اور شخصیت موضوع پر لکھی گئی ڈاکٹر محمد ابرارالباقی کی لکھی تصنیف پر تبصرہ کرتے ہوئے فکر نو کے مصنف لکھتے ہیں ” اس کام کی دستاویزی اہمیت بھی ہے۔ڈاکٹر محمد ابرارالباقی کا اسلوب رواں سادہ اور دلچسپ ہے۔تحقیق کے موضوع پر کتاب ہونے کے باوجود قاری کو کہیں روکھا پن محسوس نہیں ہوتا۔“اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل کے یہ ادبی تبصرے قاری اور ادیب کے درمیان رابطے کا کام کرتے ہیں۔ ان تبصروں کو وہ نہ صرف یکسوئی سے لکھتے ہیں بلکہ ان کی اخبارات و رسائل اور عالمی سطح پر دستیاب انٹرنیٹ کی اہم ویب سائٹوں پر اشاعت کے لئے روانہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل میں سیکھنے کی جستجو ہے ان کا عوامی رابطہ قابل ستائش ہے وہ ہر ادیب اور شاعر سے نہ صرف شاگردانہ رابطہ رکھتے ہیں بلکہ اردو کے ادبی اجلاسوں ‘سمیناروں اور دیگر تہذیبی پروگراموں کے انعقاد اور انصرام میں اپنا بھر پور دست تعاون پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ اس کتاب میں انہوں نے جن شعرا اور ادیبوں کے تبصرے لکھے وہ مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھتے ہیں اور فاضل مصنف سے ان کے روابط بھی ہیں۔ ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل سوشیل میڈیا پر سرگرم ہیں اور اپنی جانب سے اردو کی تہذیبی خبروں کو عوام تک پیش کرتے ہیں وہ اردو کے طالب علم تو ہیں ہی ویسے پیشے کے اعتبار سے نظم و نسق عامہ کے لیکچرر ہیں اور کالج میں بھی ہمہ جہت پروگراموں کے انعقاد سے نئی نسل کی علمی آبیاری کر رہے ہیں۔ اردو کے نئے دور کے طالب علموں کے لئے وہ ایک مثال ہیں۔کہ کس طرح اردو کے ابھرتے قلم کاروں کو اپنے لئے اور اردو کے لئے نئے نئے مواقع اور امکانات کا اہل بنایا جائے۔ ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل کی اس تصنیف کی اشاعت پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کے لئے نیک تمنائیں پیش ہیں او اس کے ساتھ فن تبصرہ نگاری میں مزید نکھار کے لئے ان کے لئے ایک مشورہ بھی ہے کہ وہ جس موضوع کی کتاب پر تبصرہ کر رہے ہیں اس کی تنقید بھی مد نظر رکھیں اور کتاب کے تعارف کے ساتھ اس کے ان گوشوں کی جانب ادیب و شاعر کی توجہ دہانی کرائیں جس کی کتاب میں ایک نقاد کمی محسوس کرتا ہے۔ تنقید ی رجحان زندگی کے تجربوں کے ساتھ ساتھ پختہ کار ہوتا جاتا ہے امید ہے کہ ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل اپنی تحریروں کے ذریعے ایک اچھے مبصر‘ محقق اور نقاد کے طور پر جانے جائیں گے بلکہ وہ ایک اچھے نثر نگار کے طور پر بھی ادب کی دنیا میں اپنا نام روشن کریں گے۔ مجھے خوشی ہے کہ میرے ہم وطن ہونے کے ناطے انہوں نے اہلیان نظام آباد اور اس کی اعلی ادبی روایات کو آگے بڑھانے کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ امید ہے کہ اردو کی اچھی کتابوں کے قدردارں اس کتاب کی پذیرائی کریں گے اور مصنف کو مزید حوصلہ بخشیں گے۔دیدہ زیب ٹائٹل‘ 192صفحات پر مشتمل یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہاز نئی دہلی سے شائع ہوئی۔ اور مصنف سے فون نمبر 9299655396پررابطہ کرتے ہوئے حاصل کی جاسکتی ہے۔


نام کتاب : کائستھ خاندان کی داستان . مصنف : ڈاکٹر نارائن راج مبصر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی


نام کتاب          :           ﴿SAGA OF KAYASTH FAMILY﴾ کائستھ خاندان کی داستان
مصنف             :           ڈاکٹر نارائن راج                                
مبصر                 :           ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
ٍ            ہندوستان کے تکثیری سماج میں لوگوں کو ایک تہذیبی دھارے میں جوڑنے میں اردو زبان نے ہمیشہ سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس زبان کے ذریعے اپنی گراں قدر خدمات انجام دینے والوں میں ابنائے وطن کے دیگر طبقات کے ساتھ ساتھ کائستھ طبقہ بھی پیش پیش رہا ہے۔اور اس طبقے کے افراد نے نسل در نسل اہل ہند کی زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمت کی ہے۔ کائستھ طبقے کے لوگ یوپی بہار اور مدھیہ پردیش میں مقیم تھے۔ یہ لوگ بہ یک وقت مختلف زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور ہر دور میں حکومت کے قریب رہے۔ اس خاندان کی نامور شخصیات میںڈاکٹر راجندر پرشاد‘لال بہادر شاستری‘نیتاجی سبھاش چندر بوس‘سوامی وویکانند‘اروبندو گھوش‘شانتی سوروپ بھٹناگر‘جادوناتھ سرکار‘ پریم چند‘ رام بابو سکسینہ ‘راجہ گرداھری پرشاد باقی وغیرہ شامل ہیں۔حیدرآباد کی سماجی و تہذیبی تاریخ بھی کائستھوں کی خدمات سے بھری پڑی ہے۔ وقت کے گزرنے کے ساتھ ہم اپنی تاریخ سے دور ہوتے جاتے ہیں ۔کہا جاتا ہے کہ جو قوم اپنے ماضی کے سرمایے سے واقف نہ ہو اور اس کے تجربات سے استفادہ نہ کرے وہ کبھی ترقی نہیںکرسکتی۔ چنانچہ ہندوستان اور خاص طور سے دور آصفی میں حیدرآباد میں کائستھوں کی خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے یہاں سات پیڑھیوں سے موجود کائستھ خاندان کے ایک چشم و چراغ ڈاکٹر نارائن راج نے اپنی تصنیف”Saga of Kayasth Familyکائستھ خاندان کی داستان “ میں اپنے اسلاف کے کارناموں کو حیدرآباد کی تاریخ کے تناظر میں پیش کیا ہے۔اپنے خاندان کی سات پشتوں کے نامور افراد کے کارناموں کو اجاگر کرتی یہ انگریزی تصنیف گیان پبلشنگ ہاز نئی دہلی نے شائع کی ہے۔ کتاب کے مصنف ڈاکٹر نارائن راج نرہری پرشاد چاریٹیبل ٹرسٹ کے مینیجنگ ٹرسٹی اور ڈاکٹر زور فانڈیشن کے بورڈ آف ٹرسٹی ہیں۔انہوں نے اردو اور فارسی میںکتابیں تالیف کی ہیں۔ اور

©

©” دی مغلس“ نامی انگریزی کتاب کے شریک مصنف بھی ہیں۔اپنی تازہ تصنیف میں انہوں نے گیارہ ابواب میں اپنے اسلاف دولت رائے۔راجہ رام۔سوامی پرساد۔راجہ نرہری پرشاد۔بنسی راجہ گردھاری پرشاد باقی۔راجہ نرسنگ راج عالی۔ رائے نرہر راج ساقی ۔ڈاکٹر بھاسکر راج۔ محبوب راج محبوب اور ڈاکٹر شیلا راج کی حیات اور ان کی خدمات کا احاطہ کیا ہے۔ حیدرآباد میں 1724ءمیں نواب قمرالدین خاں کو مغل بادشاہ محمد شاہ نے دکن کاصوبہ دار مقرر کیا تھا جو بعد میں نظام الملک آصف جاہ اول کہلائے ۔انہوںنے جب دہلی سے اورنگ آباد کے لئے کوچ کیاتو بہت سے تجربہ کار اور قابل اعتماد عہدہ داروں کو اپنے ساتھ دکن لیتے آئے۔ دولت رائے کا شمار بھی ان چند اہم شخصیتوں میں سے تھاجو دہلی کے کائستھ گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ اور اسی خاندان کی سات پشتوں نے دور آصفی میں اہم خدمات انجام دیتے ہوئے حیدرآباد کی تاریخ میں اپنے خاندان کا نام روشن کیا ۔ جس کی تاریخ زیر نظر کتاب” کائستھ خاندان کی داستان “ میں پیش ہوئی ہے۔اس کتاب میں آصف جاہی دور کی ادبی تاریخ بھی پیش کی گئی ہے۔اس کتاب سے کائستھ خاندان کی ریاست حیدرآباد کے لیے مجموعی خدمات کا اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ کس طرح اس خاندان کے افراد نے اپنی بے مثال خدمات سے آصف جاہی سلاطین کا دل جیتا تھا اور وہ حکومت کے اہم منصبوں پر فائز رہے۔چونکہ کائستھ خاندان کے لوگ اردو ‘فارسی ‘سنسکرت اور ہندی پر عبور رکھتے تھے چنانچہ انہوں نے سلاطین آصفیہ کی خدمات کے ساتھ شعر و ادب میں بھی کارہائے نمایاں انجام دئے جن کا ذکر اس تصنیف میں کیا گیا ہے۔

©

©”کائستھ خاندان کی داستان“ کتاب گیارہ ابواب پر مشتمل ہے۔اور اس میں زمانی ترتیب کے اعتبار سے خاندان کے افراد کی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔اس خاندان کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہ آصف جاہی سلاطین کے دربار میں اہم عہدوں پر تو فائز تھے لیکن یہ فارسی اور اردو زبانوں کے علاوہ برج بھاشا ‘سنسکرت اور ہندی پر بھی عبور رکھتے تھے۔

            کتاب کا پہلا باب کائستھ خاندان کے تعارف اور ان کی مجموعی خدمات پر مبنی ہے۔ دوسرے باب میں حیدرآباد میں کائستھ خاندان کے بانی دولت رائے اور ان کے فرنزد راج رام کی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے۔دولت رائے کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے رائے راجہ رام کو نواب نظام علی خاں آصف جاہ دوم نے ان کے والد کی خدمت ہی پر مامور کیا۔اور انہیں ملک کے اہم منصبوں پر فائز کیا وہ حکومت کے 36محکموں بشمول مطبخ شاہی کے نگران بھی تھے۔انہوں نے بھکتی کال سے متاثر ہوکر چندرا گپت مہاتم کتاب لکھی۔کتاب کے تیسرے باب میں راجہ رام کے فرزند سوامی پرشاد کی خدمات کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ آصف جاہی سلاطین نے انہیں رائے کا خطاب دیا تھا۔ آصف جاہ سوم نے سوامی پرشاد کو قلعہ آصف جاہی کی پیشکاری دی اور انہیں شاہی گھرانے کا منتظم بنایا۔سوامی پرشاد ہندی فارسی اور اردو کے عالم تھے ۔ اور اصغر تخلص اختیار کیا تھا۔ انہوںنے تینوں زبانوں میں شعر کہے تھے ۔ اصغر کی اردو فارسی غزلیات اور کلام کے مجموعے مرتب ہوئے تھے جو کتب خانہ آصفیہ میں تھے جس کا ذکر نصیر الدین ہاشمی نے اپنی کتاب ”دکنی ہندی اور اردو“میں کیا ہے ۔کتاب کے چوتھے باب میں ڈاکٹر نارائن راج نے سوامی پرساد اصغر کے بیٹے رائے نرہری پرساد کی خدمات کا احاطہ کیا ہے۔ 1861ءمیں نظام نے انہیں رائے کے خطاب سے سرفراز کیا تھا اور پانچ صدی منصب بھی عطا کی تھی۔سنسکرت کی مشہور گرنتھ (کتاب)”یوگ وشٹ“جو سارے عالم میں شہرت رکھتی ہے اس کا منظوم ترجمہ سن 1858ءمیں ہندی میں کیاتھا اور اس کو ”نرہری پرکاش “کے نام سے موسوم کیا۔ڈاکٹر نارائن راج نے لکھا کہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں شعبہ ہندی کے اسکالر امیش کمار شرما نے نرہری پرشاد کی تخلیقات کا جائزہ پر ایم فل تحقیقی مقالہ لکھا۔اور نرہری پرشاد کے نام سے شعبہ ہندی میں گولڈ میڈل بھی متعارف کروایا گیا۔
            کتاب کا پانچواں باب راجہ گردھاری پرشاد باقی سے متعلق ہے ”راجہ گردھاری پرشاد باقی سنسکرت، ہندی اور فارسی کے عالم تھے اس خاندان میں فن شاعری اور تصوف کا مذاق وراثتاً چلاآرہا ہے ۔ ان کو نواب میر محبوب علی خاں کے اتالیق بھی ہونے کا شرف حاصل رہا۔ڈاکٹر نارائن راج نے لکھا کہ آصف سادس کو بنسی راجہ پر بہت بھروسہ تھا اور وہ حکومت کے کام کاج کے سلسلے میں ان سے مشاورت کرتے تھے اور انہیں شاہی خاندان کی تقاریب کی اہم ذمہ داریاں تفویض کرتے تھے۔ بنسی راجہ نے حیدرآباد میںاسلحہ سازی اور دیگر ضروریات کے کئی کارخانے قائم کئے۔ انہوںنے 1850ءتا 1896ءتک ہندوستان کے گوشے گوشے کا دورہ کیا اور تفصیلی طورپر سفر کے حالات بھی قلمبند کئے وہ جہاں بھی جاتے نظام کی طرف سے منادر اور درگاہوں پر چڑھاوا چڑھاتے۔بنسی راجہ باقی کو ملازمت کی گوناں گوں مصروفیتوں کے باوجود مطالعہ تصنیف و تالیف اور شاعری کا بہت ذوق تھا۔دیگر زبانوں میں کتابوں کے علاوہ ان کی اردو تصانیف(۱) پتی چرتر(سوانح عمری بھاسکر آنند سرسوتی )        (۲)تحقیقات سپاس باقی       (۳) بقائے باقی(اردو دیوان)          (۴)دردِ باقی ودردِ ساقی۔ہیں۔ان کا ایک شعر اس طرح ہے۔
                        یہ بلا ہے یا فکر انسان کو    خوار کرتی ہے جسم کو جان کو
            کتاب کائستھ خاندان کی داستان کا چھٹا باب اس خاندان کے ایک اور چشم چراغ راجا نرسنگ راج عالی سے متعلق ہے۔ جوراجہ گردھاری پرشادباقی کے چوتھے فرزندتھے۔راجہ گردھاری پرشاد باقی کے اچانک انتقال پر نواب میر محبوب علی خان بہادر کو بہت صدمہ پہنچاتھا اس لئے انہوں نے راجہ نرسنگ راج عالی کو برحم خسروانہ رسم پرسہ میں سفید دوشالہ سے سرفراز فرمایا تھا نیزاسٹیٹ کورٹ آف وارڈ علاقہ صرف خاص کی نگرانی پر مقرر فرمایا ۔۔راجہ نرسنگ را ج عالی کو مہاراجہ کشن پرشاد شاد نہایت عزیز رکھتے تھے ۔ نواب میر محبوب علی خان کے چالیسویں یوم پیدائش کے جشن کے موقع پر انہیں” راج بہادر“ کا خطاب دیا گیا۔بہرحال راجہ نرسنگ راج عالی ایک علم دوست شاعر ،ملی جلی تہذیب اور ہندو مسلم اتحاد کے ایک بہترین نمونہ تھے آپ کے کلام میں سادگی اورصوفیانہ زندگی کی جھلک تھی۔ان کی ایک مشہور نظم ہند نامہ ہے جس کے اشعار اس طرح ہیں:
                        تیرا جلال اور جمال ہے یہ             تجھ پہ مرتے ہیں سب کمال ہے یہ
                        دونوں قوموں کی تو ہی مادر ہے                   سب پجاری ہیں تو ہی مندر ہے
                        دل دیتا ہے دعا یہ عالی                  اور ہو تیرا مرتبہ عالی
کتاب کا ساتواں باب رائے نرہر راج ساقی کے بارے میں ہے جو راجہ نرسنگ راج عالی کے بڑے فرزند تھے۔رائے نرہرراج کو اپنے والد محترم کے ساتھ شاد کی محفلوں اور مشاعروں میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ حضرت شاد کے دربار کے علاوہ دیگر امرائے دکن کے شعر و سخن کی محفلوں میں بھی آپ برابر شریک رہتے تھے ۔ راجہ صاحب نے فطری طورپر ایک شاعر کا دل پایاتھا ۔ آپ نہ صرف علم دوست بلکہ علم پرور بھی تھے۔ آپ عجز و انکسار اور اخلاق کا مجسمہ تھے۔ راجہ صاحب کے کلام میں تصوف اور معرفت کی جھلک پائی جاتی ہے ۔ ان کی غزلیات میں بھی بعض جگہ حضرت داغ کارنگ نمایاں ہے ۔
راجہ صاحب کے چند منتخبہ اشعار یہ پیش کئے جارہے ہیں۔
کعبے میں چلے جا یا بت خانے میں جا
جز نام خدا اور کوئی نام نہیں ہے
            کتاب کا آٹھواں باب ڈاکٹر بھاسکر راج سے متعلق ہے جو رائے نرہر راج کے فرزند تھے۔وہ1934ءکو حیدرآباد میںپیدا ہوئے اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کی ۔ سرکاری ملازمت میں مختلف عہدوں پر فائز رہے وہ اردو ہندی اور انگریزی کے بہت اچھے مقرر تھے۔انہوں نے ساٹھ60سے زائد مضامین لکھے۔ ان کی یاد میں یونیورسٹی آف حیدرآباد کے شعبہ ہندی میں میڈل دیا جاتا ہے۔کتاب کے نویں باب میں محبوب راج محبوب کا ذکر ہے۔ ”راجہ گردھاری پرشاد باقی کے چھوٹے بیٹے راجہ محبوب راج 1312ھ کو حیدرآباد میں پیدا ہوئے ۔اپنے بچپن کا زمانہ اپنے بھائی راجہ نرسنگ راج عالی کے ساتھ گذارا ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ عالیہ و گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہوئی ۔ ملازمت اختیار کرنے سے قبل زراعت کی جانب مائل تھے اور اس کے بعدصنعت و حرفت کی طرف رجوع ہوئے اور کارخانہ صنائع دکن قائم کرکے اس کو بے انتہا فروغ دیا۔ ابتداءمیں حضرت کشن پرشاد شاد کی شاگردی اختیار کی۔ بعد میں نواب فصاحت جنگ بہادر جلیل کے شاگرد ہوئے ۔ دیوڑھی عالی جناب سر مہاراجہ بہادر میں جو مشاعرے ہوتے تھے ان میں راجہ صاحب ہمیشہ اپنی غزل سناتے اور ہر شعر پرداد و تحسین حاصل کرتے۔راجہ محبوب راج کو اپنی خاندانی وجاہت آباواجداد اور اپنے والد بزرگوار راجہ گردھاری پرشاد محبوب نواز ونت باقی پر بڑا فخر و ناز تھا اور ہمیشہ اس کا پاس و لحاظ رکھتے تھے ۔
محبوب جس قدر بھی کرو ناز ہے بجا تم ان کی یادگار ہو جو نام کر گئے
            کائستھ خاندان میں خواتین نے بھی اپنی علمی و ادبی خدمات سے اپنا نام روشن کیا ۔ چنانچہ کتاب کے دسویں باب میں ڈاکٹر نارائن راج نے ڈاکٹر شیلا راج کی خدمات کا احاطہ کیا جو مصنف کی اہلیہ بھی تھیں۔شیلا راج نے عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا ۔ کچھ عرصہ محبوبیہ کالج مین اردو لیکچرر رہیں۔ شادی کے بعد بمبئی منتقل ہوگئیں اور وہاں سے حیدرآباد کی معاشی و تہذیبی تاریخ پر پی ایچ ڈی کیا۔وہ اچھی مورخ تھیں اور آصف جاہی دور کے بارے میں اتھاریٹی سمجھی جاتی تھیں انہیں حیدرآبادی تہذیب سے پیار تھا چنانچہ انہوں نے اپنی بیشتر تصانیف آصف جاہی دور کے بارے میں لکھیں۔جن میں ایک اہم کتاب شاہانِ آصفیہ کی رواداری اور ہندو مسلم روایات ہے۔ ڈاکٹر شیلا راج کی علمی و ادبی خدمات پر حیدرآباد کے ابھرتے قلمکار ڈاکٹر عبدالعزیز سہیل نے حال ہی میں عثمانیہ یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ ڈاکٹر نارائن راج نے اپنی تصنیف کے اختتامی باب میں اپنے اسلاف کی خدمات کا مجموعی احاطہ کیا ہے۔ کتاب کے اختتام پر ڈاکٹر نارائن راج لکھتے ہیں: دولت رائے خاندان کے بارے میں لکھتے ہوئے نہ صرف میں نے اس خاندان کی ادبی خدمات کو اجاگر کیا ہے بلکہ اس خاندان کے افراد کے آصف جاہی سلاطین سے قریبی روابط کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس خاندان نے کس طرح دور آصفی میں سیاسی ‘سماجی‘تہذیبی و ثقافتی شعبوں میں دوسو سال تک خدمات انجام دیں۔اس کتاب کے مطالعے سے ہماری نئی نسل کو اندازہ ہوگا کہ کس طرح گزشتہ حیدرآباد میںلوگ قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی اعلیٰ مثال تھے“۔ مجموعی طور پر یہ کتاب آصف جاہی دور کے ان گوشوں کو بھی اجاگر کرتی ہے جو تاریخ میں گمشدہ تھے۔ خاص طور سے اس کتاب میں اس جانب اشارہ ملتا ہے کہ سلاطین آصفیہ کی رواداری مثالی تھی۔یہ کتاب حیدرآباد کی سماجی ثقافتی و ادبی تاریخ پر گراں قدر اضافہ ہے۔ کتاب میں کائستھ خاندان کے افراد کی تصاویر بھی شامل کی گئیں ہیں اور رومن اردو میں اشعار بھی پیش کئے گئے ہیں۔ کتاب میں سادہ اور بیانیہ انداز میں واقعات اور تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ تاہم قاری کو اندازہ ہوتاہے کہ مصنف کو خود بھی حیدرآبادی تہذیب سے پیار تھا اور وہ اپنے اسلاف کے لیے سلاطین آصف جاہی کی جانب سے ملے اعزاز و اکرام پر ایک طرح کا اظہار تشکر کر رہا ہو۔ ایک ایسے دور میں جب کہ کچھ لوگ حیدرآباد کے زرین ماضی کو بھلانے تاریخ کو غلط طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور محسن ریاست حیدرآباد سلاطین آصفیہ کی رواداری پر شک کر رہے ہیں ڈاکٹر نارائن راج کی یہ تصنیف حیدرآباد کے شاندار ماضی کے احیاءکی ایک اچھی کوشش سمجھی جائے گی۔ امید ہے کہ اس کتاب کا اردو میں بھی ترجمہ ہوگا۔ تاکہ کائستھ خاندان کی یہ داستان اہل اردو بھی پڑھ سکیں گے۔ خوبصورت طباعت اور سر ورق سے آراستہ اس کتاب کی قیمت900/-روپئے ہے جو فاضل مصنف سے حاصل کی جاسکتی ہے۔


رسالہ روشن ستارے۔دوسرا شمارہ ۔جولائی 2019 ناشر : اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ حیدرآباد مبصر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی


رسالہ روشن ستارے۔دوسرا شمارہ ۔جولائی 2019
ناشر   :        اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ حیدرآباد
مبصر  :        ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
            اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ کی جانب سے فروغ اردو کے عملی اقدام کے طور پر ماہ جون2019سے بچوں کے لیے ایک مکمل رنگین رسالہ”روشن ستارے“جاری کیا گیا۔ پہلے شمارے سے ہی اس رسالے کی مقبولیت بڑھ گئی۔ مہاراشٹرا میں اس رسالے کی ریکارڈ کاپیاں فروخت ہوئیں اور اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ اس رسالے کو سبھی اردو داں طبقے کے بچوں تک پہونچایا جائے۔روشن ستارے کا دوسرا شمارہ جولائی میں شائع ہوا۔سر ورق پر ہندوستان کے عظیم سائنس دان اے پی جی عبدالکلام مرحوم کی تصویر شائع کی گئی اور 27 جولائی کو ان کے یوم وفات کے ضمن میں اس رسالے کے ذریعے انہیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اور ان پر ایک تعارفی مضمون بھی شائع کیا گیا۔اندرونی سرورق پر ستاروں کا البم کے عنوان سے قارئین کے بچوں کی رنگین تصاویر شائع کی گئیں۔یہ ایک اچھا سلسلہ ہے کہ بچے اپنی تصویر رسالے میں شائع دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔سنو بچو ! کے نام سے سکریٹری ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی جناب بی شفیع اللہ آئی اے ایس کا پیغام شامل کیا گیا جس میں انہوں نے اردو زبان کی ہمہ جہتی اور تہذیبی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ روشن ستارے کی اشاعت سے بچوں کے لیے اردو زبان کا جو گلدستہ تیار کیا گیا ہے اس سے بچے مستفید ہونگے اور ایک بہتر ہندوستان کی تعمیر کریں گے۔ڈکٹر کلیم ضیا کی حمد ”خدایا مرے دل کو ایسی نظر دے  زمانے کی مجھ کو جو پل پل خبر دے“ اور محمد منہاج الدین کی جانب سے پیش کردہ نعت شریف”محبت جس کو ہو خیر الوریٰ سے اسے کیا خوف ہے روز جزا سے“ سے شمارے کی مشمولات کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ شمارے کے آغاز میں حمد و نعت دی جائے تاکہ بچے انہیں ترنم سے پڑھنا سیکھ لیں اور ان میں پوشیدہ پیغام سے واقف ہوں۔باغ والے کے نام سے حشمت کمال پاشا کی بچوں کے لیے ایک تربیتی کہانی شامل کی گئی جس میں بچوں کو لالچ کے برے انجام سے واقف کرایا گیا۔ماہی خور پرندے کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون ڈاکٹر ایم اے قدیر کی جانب سے پیش کیا گیا۔ اس طرح کے مضامین سے بچوں میں اردو زبان میں فطرت کے بارے میں معلومات عام ہوں گی۔بچوں کے لیے ایک دلچسپ نظم ”بھالو بھاگا“ اس شمارے کا حصہ ہے جسے فراغ روہوی نے لکھا۔چھوٹی بحر میں اشعار جیسے” اس کا اک کردار تھا آلو اس کے پیچھے پڑا بھالو۔ شامل کرتے ہوئے بچوں کی توجہ شاعری کی جانب مبذول کرائی گئی۔ظالم بادشاہ کے نام سے ایک کہانی شامل رسالہ ہے ۔ رحمت علی نظام آباد اور محمد شکیل الدین آصف نگر کی جانب سے بھیجی گئیں حکایات کو شامل رسالہ کیا گیا۔عمران آصف کی نظم ”چنچل بچے“ حیدر بیابانی کی نظم ”منی کا بستہ“اور مرتضی ساحل تسلیمی کی نظم”شتر مرغ“ رسالے میں چار چاند لگاتی ہیں۔محمد قمر سلیم کی ایک اصلاحی کہانی”انجانا دوست“ بچوں کے مطالعے کی دلچسپی کا سامان فراہم کرتی ہے۔عمر احمد شفیق کی جانب سے مرسلہ مضمون”علامہ اقبال کا بچپن“ دلچسپ ہے اور بچوں کو اقبال کے بچپن کے واقعات سے واقف کراتا ہے۔ہنسو اور ہنسا سلسلے کے تحت قارئین کی جانب سے روانہ کردہ دلچسپ لطائف بچوں کے لیے ہنسی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔مشتاق کریمی کی اصلاحی تحریر”امی کا خط زید کے نام“ دراصل ان تمام بچوں کے لیے ان کی ماں کی جانب سے نصیحت ہے کہ انہیں اپنے شب و روز کیسے گزارنا چاہئے۔ اب جب کہ والدین کی جانب سے بچوں کو نصیحت کرنا کم ہوگیا ہے ایسے میں اس طرح کی تحریروں سے بچوں کی تربیت ممکن ہے۔ماں کے رتبے کو پروان چڑھانے والے نامور شاعر منور رانا کے شعر” بلندیوں کا بڑے سے بڑا نشان چھوا اٹھایا گود میں ماں نے تب آسمان چھوا“ کو ایک تصویر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔شگوفہ ساحل کی تحریر ”پپا کی نصیحت بھی والد کی جانب سے بچوں کے لیے نصیحتیں ہیں۔ ڈاکٹر احتشام خرم نے ”انٹرنیٹ کیا ہے“ عنوان سے آسان زبان میں انٹرنیٹ کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں۔رسالے کے آخر میں بچوں کے لیے دلچسپ سلسلے اقوال زرین مرسلہ محمد اعظم کریم نگر‘ ہندسے ملا کر جانور کی تصویر مکمل کرو‘بچوں کی جانب سے تیار کردہ تصاویر گلکاریاں کے عنوان سے شامل کی گئی ہیں۔رنگ بھرو اور جانور کو بھول بھلیوں سے گزار کر اس منزل تک پہونچانا بچوں کے لیے اچھی دماغی ورزش ثابت ہوسکتی ہیں۔چٹھی آئی ہے کے عنوان سے روشن ستارے کے بارے میں قارئین کے خطوط کو شامل کیا گیا ہے۔ اس سے رسالے کے بارے میں عوامی رائے جاننے میں سہولت ہوتی ہے۔کیرئیر گائڈنس کے تحت نامور ماہر تعلیم جناب فاروق طاہر صاحب کو سوال جواب پر مشتمل کالم معلوماتی ہے۔تعلیمی خبر نامہ میں تعلیم سے متعلق اہم خبروں کو جگہ دی گئی ہے۔اندرونی کور پر وزیر داخلہ جناب مھمدو علی صاحب کی جانب سے رسالے کے رسم اجرا کی تصویر اور مہاراشٹرا کے ایک اسکول میں سبھی طلباءکے ہاتھوں میں روشن ستارے کی تصویر شامل کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر رسالے کے مدیر جناب سردار سلیم صاحب کی کاوش سے بچوں کا یہ رسالہ ایک رنگین اور حسین معلوماتی گلدستہ بن گیا ہے۔ مائیں اپنے بچوںکو شام کے اوقات میں اور چھٹی کے دن اس رسالے کی بلند خوانی کے لیے وقف کریں۔ بچوں کو اس رسالے کے سارے مشمولات پڑھائیں اور ان کے بارے میں گفتگو کریں۔ یہ رسالہ دنیا کے دیگر ممالک تک پہونچے اس غرض سے فیس بک پر بھی راقم کی جانب سے پیش کیا گیا ۔ امریکہ برطانیہ اور خلیجی ممالک میں مقیم ہندوستانی جن کی مادری زبان اردو ہے وہ اس رسالے کو اپنے بچوں تک ضرور پہونچائیں اور انہیں اس رسالے کے مطالعے کی ترغیب دیں۔ ملک و بیرون ملک ”روشن ستارے “ کو عام کرنا ہر اردو داں کی سماجی ذمہ داری ہے کیوں کہ زبان کے ساتھ ہماری تہذیب وابستہ ہوتی ہے۔ اور اسمارٹ فون کے مضر اثرات سے بچوں کو بچائے رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ ہم اس طرح کے مہذب‘معلوماتی اورادبی دلچسپی کے حامل رسالے کو اپنے بچوں کا تحفہ بنائیں۔ امید ہے کہ ”روشن ستارے “میں بچوں کے لیے مزید دلچسپی کی باتیں شامل کی جائیں گی۔ رسالے میں خریداری کی تفصیلات دی گئی ہیں۔سالانہ120روپئے کا ڈیمانڈ ڈرافٹ اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ کے نام سے بنا کر اپنے مکمل پتے کے ساتھ حج ہاز نامپلی حیدرآباد روانہ کردیں تو یہ رسالہ ذریعے پوسٹ آپ کے گھر تک آئے گا۔ امید کی جاتی ہے کہ رسالے کی جتنی بھی مانگ ہو اردو اکیڈیمی اس کی تکمیل کرے گی۔ اور اردو کی ایک نئی نسل کی تیاری میں مددگار ثابت ہوگی۔ اردو کے فروغ کے لیے چیرمین اردو اکیڈیمی جناب رحیم الدین انصاری صاحب جو کوشش کر رہے ہیں اس کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں اور رسالہ ”روشن ستارے“ مقبول ہورہا ہے۔

تبصرہ : رسالہ” روشن ستارے“(پہلا شمارہ) ناشر : اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ مبصر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی


تبصرہ :        رسالہ” روشن ستارے“(پہلا شمارہ)
ناشر   :       اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ
مبصر  :        ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

            بچے کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیںاور ان کی تعلیم و تربیت کرنا والدین اور سماج کی ذمہ داری ہے۔بچہ مادری زبان میں گھر سے تہذیب کے گھونٹ پی کر درس گاہ میں قدم رکھتا ہے ۔ اگر اس کی مادری زبان میں ہی اس کی تربیت کا سامان فراہم کیا جائے تو بچوں کی بہتر تربیت ممکن ہے۔ تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈیمی کے صدر نشین جناب رحیم الدین انصاری صاحب جب دوسری مرتبہ اردو اکیڈیمی کے صدرنشین نامزد کئے گئے تو اپنا عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے اردو اکیڈیمی کی جانب سے فروغ اردو کے مزید نئے کاموں کا آغاز کیا۔ماہرین اردو زبان‘اساتذہ اور دانشوروں کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد کئے ۔جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہماری نئی نسل کو اردو زبان اور اس کی تہذیب سے وابستہ کرنے کے لیے بچوں کا ایک دلچسپ اور خوش نما رسالہ جاری کیا جائے۔اردو اکیڈیمی کی جانب سے پہلے ہی ادبی رسالہ”قومی زبان“ شائع ہورہا ہے۔ جب بچوں کا رسالہ نکالنا طئے ہوا تو اس کے لیے حیدرآباد کے نامور شاعر جناب سردار سلیم صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں جو روزنامہ اعتماد میں بچوں کا صفحہ ترتیب دیتے ہوئے کافی مقبول ہوچکے ہیں۔ چونکہ بچوں کا رسالہ رنگین نکالنا تھا اس لیے اردو میں رسالے کی تزئین و گلکاری کی خاطر ماہر ڈی ٹی پی جناب محمد منہاج الدین کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اس طرح جناب رحیم الدین انصاری صاحب کی جستجو اور بچوں کے رسالے کے لیے دستیاب ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے بعد ماہ جون سے رسالے کا اجرا عمل میں آیا۔ اور اس کا نام ”روشن ستارے“ رکھا گیا۔ بچوں کے رسالے کی مناسبت سے یہ نام موزوں دکھائی دیتا ہے۔اس رسالے کی مجلس مشاورت میں پروفیسر عقیل ہاشمی‘پروفیسر مجید بیدار اور پروفیسر فاطمہ پروین جیسے قابل اساتذہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی کے نام شامل ہیں۔ چونکہ یہ پہلا رسالہ ہے اس لیے اس میں موجودہ قلمکاروں کی کم تخلیقات دکھائی دیتی ہیں جب کہ اردو میں بچوں کا ادب لکھنے والوں کے انتخابات کو ترجیح دی گئی ہے۔رسالے کے اندرونی کور پر ستاروں کا البم نام سے چار بچوں کی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ اور انہیں خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل میں جب لوگ اپنے بچوں کی تصاویر بھیجنے لگیں تو زیادہ بچوں کی تصاویر شائع ہوسکتی ہیں۔ والدین چاہتے ہیں کہ ان کے پھول جیسے بچوں کی رنگین تصاویر اس خوبصورت رسالے کی زینت بنے۔رسالے کا آغاز جناب محمد عبدالوحید صاحب مدیر رسالہ و سکریٹری ڈائرکٹر اردو اکیڈیمی کے اداریے سے ہوتا ہے۔انہوں نے اس رسالے کی اجرائی کے لیے جناب رحیم الدین انصاری صاحب کی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے سبھی محبان اردو کو فروغ اردو کی اس مہم سے جڑجانے کی اپیل کی ہے۔رسالے کی ابتداءبچوں کے مشہور ادیب و شاعر اسمعٰیل میرٹھی کی حمد سے ہوتی ہے۔ تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا۔کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا۔ یہ وہ حمد ہے جسے ماضی کے سبھی اردو دانوں نے اپنی ابتدائی درسی کتابوں میں پڑھا ہے۔حمد کے بعد اقبال کی مشہور دعا” لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری“ کو شامل کیا گیا ہے تاکہ بچوں پر اس دلنشین دعا کے اثرات مرتب ہوں اور وہ اسے پڑھ کر اس دعا کی عملی تصویر بن سکیں۔حمد اور دعا کے بعد مسعود حسین رضوی ادیب کا تحریر کردہ معلوماتی مضمون پانی کا سفر شامل کیا گیا ہے۔ اس مضمون میں آسان زبان میں ہمارے ماحول میں پانی کی مختلف حالتوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ساتھ میں ماحول سے متعلق خوبصورت رنگین تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ایک دلچسپ نظم” آتے ہوں گے ابو“ شامل رسالہ ہے ۔جسے سہیل عالم نے لکھا ہے۔ بچوں کو رسالے سے جوڑنے کی خاطر ننھے قلمکار کے نام سے اچھا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس میں دلچسپ معلومات کو شامل کیا گیا ہے۔کہانیاں بچے دلچسپی سے پڑھتے ہیں چنانچہ مناظر حسین کی لکھی کہانی تدبیرشامل رسالہ ہے۔ جس میں بچوں کو بری صحبت سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے اور اس بات کو مثال سے سمجھایا گیا ہے۔ڈاکٹر حلیمہ فردوس بنگلور کی کہانی پیڑ کی فریاد شامل رسالہ ہے جس میں پودے اگانے کی اہمیت اجاگر کی گئی ہے۔ہنسو اور ہنسا سلسلے کے تحت لطائف شامل کئے گئے ہیں۔ اور ان کے بھیجنے والوں کے نام بھی ساتھ میں لکھے گئے ہیں۔سفید شیر کے عنوان سے معلوماتی مضمون دیا گیا ہے۔ جھوٹی تعریف پر کان نہ دھرو مختصر کہانی کے علاوہ حضرت لقمان کی نصیحتیں از ارشد مبین زبیری‘چالاک درزی حکایت ‘اسمٰعیل میرٹھی کے بارے میں تعارفی مضمون‘ایڈیسن کے بارے میں تعارفی مضمون شامل رسالہ ہیں۔ پروفیسر مجید بیدار کی نظم نرانی غذا غب چپ اور برسات کے نام سے دلچسپ نظمیں شامل کی گئی ہیں رسالے میں بچوں کی دلچسپی کے لیے رنگ بھرو اور راستہ دکھا جیسے دلچسپ سلسلے شروع کئے گئے ہیں۔ فاروق طاہر تعلیم سے متعلق سوالات کے جوابات دے رہے ہیں۔ رسالے کے نام کے عنوان سے چراغ حسن حسرت کی نظم آ ہم تارے بن جائیں شامل کی گئی ہے۔عزیز عدنان ملے پلی کی جانب سے اردو کے بارے میں معلوماتی سوال جواب اچھی کوشش ہے۔مجموعی طور پر رسالہ ننھے ستارے بچوں کے لیے اردو ادب کا بہترین گلدستہ ہے۔امید ہے کہ جیسے جیسے رسالہ ترقی کرے گا اس میں مزید دلچسپ سلسلے شروع ہوں گے۔ عالمی سطح پر بچوں کے ادب کی مقبولیت پر نظر ڈالیں تو ہمیں ہیری پوٹر اور کارٹون سیریز کی مقبولیت دکھائی دیتی ہے۔ اردو میں ہیری پوٹر کا سلسلہ وار آسان ترجمہ پیش کیا جائے یا کوئی دلچسپ قسط وار سلسلہ جیسے حاطم طائی کا قصہ‘سند باد جہازی کی داستان یا کوئی اور مشہور سلسلہ شروع کی جائے تاکہ بچوں کا تحیر اور دلچسپی برقرار رہے۔بچوں کے لیے ذہنی ورزش‘کوئز وغیرہ شروع کیا جائے۔ کسی تجارتی ادارے کی مالی امداد سے انعامی سلسلہ شروع کیا جائے تاکہ لوگ زیادہ سے زیادہ رسالے سے جڑنے لگیں۔ خطوں میں عوامی رائے کو شائع کیا جائے۔ والدین اور اساتذہ اس رسالے کے مطالعے کے لیے بچوں کو وقت فراہم کریں اور ان کی نگرانی کریں کہ وہ کیسے پڑھتے ہیں۔ جب اس رسالے کی تشہیر ہوئی تو مہاراشٹرا سے ایک خریدار نے پہلی اشاعت کی تین ہزار کاپیاں منگا کر اسکولی بچوں میں تقسیم کیں۔ تجویز رکھی گئی کہ اس رسالے کو جس کی قیمت صرف دس روپئے ماہانہ اور سالانہ120روپئے ہے اردو مادری زبان والے سبھی بچوں تک پہونچایا جائے۔والدین اور اسکول انتظامیہ اس رسالے کو اپنے بچوں کے لیے تحفے کے طور پر خریدیں اور اپنی نگرانی میں اس کا مطالعہ کرائیں۔ اس رسالے میں بچوں کی طرف سے تخلیقات روانہ کریں جس کے لیے ای میلroushansitare.tsua@gmail.comدیا گیا ہے۔ اور ادارے کی جانب سے تخلیق کاروں سے اپیل کی گئی ہے کہ بچوں کا ادب تخلیق کیا جائے۔ ایک دور میں جب کہ ٹیلی ویژن اور اسمارٹ فون نہیں تھا ہمارے بچے رسالہ نور‘کھلونا‘ ہلال‘ہادی وغیرہ پڑھ کر اپنے مطالعے کے ذوق کی تکمیل کر تے تھے۔ آج والدین اور سماج کے لیے ایک چیلنج ہے کہ کس طرح ہم اپنے بچوں کے ہاتھوں سے فون ہٹا کر ان کے ہاتھ میں اس طرح کے رسالے دیں جن کے مطالعے سے ان کی اردو دانی بڑھے گی اور ان کی اخلاق کی تربیت بھی ہوگی۔ مجموعی طور پر رسالہ ننھے ستارے اردو اکیڈیمی تلنگانہ اسٹیٹ کی ایک کامیاب کوشش ہے جس کی اردو حلقوں کی جانب سے پذیرائی ہونی چاہئے۔ رسالے کی خریداری کے لیے سکریٹری /ڈائرکٹر تلنگانہ اسٹیٹ کے نام ڈرافٹ یا منی آڈر بھیج سکتے ہیں۔امید ہے یہ رسالہ آن لائن بھی رکھا جائے گا تاکہ دنیا بھر کے اردو دان اپنے بچوں کو اسے پڑھنے کے لیے دے سکیں گے۔

نام کتاب : ادبی و تہذیبی رپورتاژ مصنف : ڈاکٹر محمد ناظم علی مبصر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی



نام کتاب     :       ادبی و تہذیبی رپورتاژ
مصنف                :       ڈاکٹر محمد ناظم علی
مبصر           :       ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی
            حیدرآباد دکن میں اردو کے زود نویس قلم کاروں میں ایک اہم نام ڈاکٹر محمد ناظم علی کا ہے۔جو ایک اچھے ادبی صحافی‘محقق‘نقاد اور سماجی دانشور ہیں۔تحقیقی و تنقیدی موضوعات پر ان کی اب تک نو کتابیں آئینہ عصر‘روح عصر‘عکس ادب‘حیدرآباد کے ادبی رسائل آزادی کے بعد‘پروفیسر آل احمد سرور فکر وفن‘ادبی بصیرت‘تنقید فکر‘افکار جدید اور نقش ہیں سب ناتمام شائع ہو کر مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔ اردو اخبارات و رسائل میں ان کے فکر انگیز مراسلے اور ادبی مضامین آئے دن زینت بنتے رہتے ہیں ۔ اردو دنیا نئی دہلی‘سب رس حیدرآباد اور دیگر رسائل میں ان کے مراسلے اور تبصرے بہ طور خاص شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ حیدرآباد اور تلنگانہ کی ادبی محفلوں میں وہ بہ طور خاص شرکت کرتے ہیں ۔مقالے پیش کرتے ہیں اور ادب کے کسی بھی موضوع پر عصری تقاضوں کو ہم آہنگ رکھتے ہوئے گفتگو کرتے ہیں۔ وہ شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کے ان فاضل طلباءمیں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اردو سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے سرکاری ملازمت حاصل کی۔ پبلک سرویس کمیشن کا امتحان کامیاب کرتے ہوئے ڈگری کالج میں اردو لیکچرار کے طور پر خدمات انجام دیں اور بہ حیثیت پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نظام آباد سے وظیفہ پر سبکدوش ہوئے اور اب مستقل طور پر حیدرآباد میں مقیم ہیں اور اپنی علمی و ادبی سرگرمیوں میںمصروف کار ہیں۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی زمانہ طالب علمی سے ہی ایک ذہین اسکالر رہے ہیں۔ انہوں نے تحقیق کے شعبہ میں بھی کارہائے نمایاں انجام دئے اور ”حیدرآباد کے ادبی رسائل آزادی کے بعد“عنوان پر ایک گراں قدر تحقیقی مقالہ لکھا۔ اپنے اس کام کے دوران انہوں نے حیدرآباد کے بیشتر ادبی رسائل کے پہلے شمارے کو کھوج کر قارئین کے روبرو پیش کیا۔ انہوں نے پروفیسر اشرف رفیع کے زیر نگرانی اردو کے نامور نقاد پروفیسر آل احمد سرور کے فکر و فن پر پی ایچ ڈی کے لیے تحقیقی مقالہ لکھا اور بعد میں اسے کتابی شکل دی۔ ان کے اس کام کی ہند و پاک میں کافی پذیرائی کی گئی۔ اب ڈاکٹر محمد ناظم علی اپنی دسویں تصنیف ”ادبی و تہذیبی رپورتاژ“ کے ساتھ حاضر ہورہے ہیں۔ اس تصنیف میں انہوں نے حیدرآباد اور تلنگانہ کی مختلف جامعات میں منعقدہ ادبی سمیناروں ‘اردو اساتذہ کے لیے منعقدہ اردو ریفریشر کورسز اور مختلف ادبی تنظیموں کی جانب سے منعقدہ ادبی اجلاسوں کی رپورتاژوں کو یکجا کرکے پیش کیا ہے۔ انہوں نے رپورتاژ لکھنے کا یہ سلسلہ 1999سے شروع کیا اور اس کتاب میں حالیہ عرصے تک منعقدہ بعض اہم سمیناروں اور ادبی اجلاسوں کی روداد شامل ہے۔
            رپورتاژ نگاری کی صنف مغرب سے اردو ادب میں آئی اور ترقی پسند تحریک سے اس کو عروج حاصل ہوا۔اس صنف کی تشکیل میں صحافت اور ادب کا امتزاج شامل ہے۔ کسی بھی ادبی اجلاس کی روداد جس میں روداد نگارواقعات کو دلچسپ انداز میں اس طرح پیش کرے کہ روداد کے ساتھ لکھنے والے کا اسلوب بھی دلچسپی پیدا کردے اسے رپورتاژ کہتے ہیں۔کرشن چندر نے اردو کا ابتدائی رپورتاژ” پودے“ کے عنوان سے لکھا جس میں حیدرآباد میں منعقدہ ایک اردو کانفرنس میں بمبئی سے آئے ادیبوں کی شرکت کو افسانوی رنگ میں پیش کیا گیا تھا۔ اچھا رپورتاژ وہی سمجھا جاتا ہے جس میں روداد کے ساتھ افسانوی رنگ اور اسلوب کی چاشنی ہو۔رپورتاژ نگاری کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ قارئین کو کسی اجلاس کی روداد سے اس طرح واقف کرایا جائے کہ اسے پڑھنے کے بعد قاری کو احساس ہو کہ اس نے بھی اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔ طمانیت کا احساس بھی رپورتاژ کی کامیابی کی ایک مثال ہے۔ اردو کے اخبارات و رسائل میں رپورتاژ کی اشاعت سے اس فن کو جلا ملی اور اب یہ باقاعدہ غیر افسانوی نثر کی صنف مانی جاتی ہے۔ڈاکٹر محمد ناظم علی کی اس تصنیف میںکل24ادبی اجلاسوں اور سمیناروں کے رپورتاژ شامل ہیں۔ ان کی رپورتاژ نگاری کی خاص بات یہ ہے کہ وہ جس اجلاس میں بھی شرکت کرتے ہیں اس کی روداد کو پہلے محفوظ کرتے ہیں اور پھر جزئیات نگاری کے ساتھ پیش کرتے ہوئے اپنی تنقیدی رائے بھی دیتے ہیں۔ انہوں نے رپورتاژ نگاری میں ایک خاص پہلو نکالا کہ اردو اساتذہ کے لیے جو ریفریشر کورس منعقد ہوتے ہیں ان کی تفصیلات بھی رپورتاژ میں پیش کردیں۔ عام طور پر یونیورسٹی اور ڈگری کالج کے اساتذہ کے لیے تین ہفتوں کے ریفریشر کورسز کا اکیڈیمک اسٹاف کالج کی جانب سے انعقاد عمل میں آتا ہے جس میں ملک بھر کی جامعات اور کالجوں کے اساتذہ شرکت کرتے ہیں۔ ماہر اساتذہ مختلف ادبی موضوعات پر فکری و تحقیقی بات کرتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی نے اساتذہ کے لیے مخصوص ان ریفریشر کورسز کی یادوں کو رپورتاژ میں پیش کرتے ہوئے اردو اساتذہ کے علاوہ دیگر قارئین کی معلومات میں اضافے کی کوشش کی ہے۔ ان ریفریشر کورسز میں مختلف علاقوں کے اساتذہ ایک دوسرے سے تہذیبی تبادلہ خیال کرتے ہیں اور دوران کورس اپنے سوالات سے موضوع سے متعلق وسیع تر معلومات کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تفصیلات ڈاکٹر محمد ناظم علی کے رپورتاژوں کا حصہ ہیں۔ اردو یونیورسٹی حیدرآباد میںمنعقدہ تیسرے اردو ریفریرشر کورس کی روداد بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد ناظم علی نے پروفیسر افضال صاحب کے حوالے سے لکھا کہ” اردو والوں کا خواب شرمندہ تعبیر مانو وسے ہوا۔لیکن ذمہ داران پر یہ گراں بہار ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ دانش مندانہ و مفکرانہ انداز سے اس کے منصوبوں پر عمل آوری کریں۔مانو ایک مشن ہے اور اس کو منزل مقصود تک پہونچانا سب کی ذمہ داری ہے“ عثمانیہ یونیورسٹی صدی تقاریب کے ضمن میںمنعقدہ سمینار کی رپورٹ میں پروفیسر انور معظم کے حوالے سے انہوں نے لکھا کہ” اردو کا بنیادی سطح پر کام ہونا ہے۔جڑیں سوکھ رہی ہیں۔اس کی آبیاری ناگزیر ہے“ ۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی نے اردو کے دیگر کئی سمیناروں میں شرکت کی اور ان کی روداد کو دلچسپ انداز میں پیش کیا۔ چاہے وہ گری راج کالج نظام آباد کا سمینار ہو یا تلنگانہ یونیورسٹی‘مولانا آزاد اردو یونیورسٹی یا کسی اور کالج کا۔ ان سمیناروں کی روداد پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سمینار میں موضوع سے متعلق کون کونسے گوشوں پر مباحث ہوئے اور ان کا نتیجہ کیا رہا۔ڈاکٹر محمد ناظم علی کے یہ ادبی رپورتاژ گزشتہ دو دہائیوں میں دکن کی ادبی تاریخ کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اور کافی عرصہ گزر جانے کے بعد جب ان رپورتاژوں کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حیدرآباد اور علاقہ تلنگانہ میں کون کونسے پروگرام ہوئے تھے۔ ان رپورتاژوں میں جن ماہرین کے بیانات کے اقتباسات شامل ہیں ان سے ادب کے بارے میں دانشوروں کی رائے کا پتہ چلتا ہے۔ اردو زبان کے مسائل اور ان کے حل سے واقفیت ہوتی ہے۔حیدرآباد میں جناب جلیل پاشا مرحوم کی جانب سے ہر سال منعقد ہونے والی کل ہند اردو کانفرنسوں کی روداد کا پتہ چلتا ہے۔یہ رپورتاژ اردو زبان و ادب تحقیق و تنقید کا اشاریہ ہیں جن کی بنیاد پر اردو کے اسکالر تحقیق و تنقید میں قدم بڑھا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی کا اسلوب نگارش سادہ اور رواں ہے وہ ایک اعتدال پسند اور حق گو نقاد کی طرح دوران گفتگو اپنی رائے بھی دیتے جاتے ہیں۔ جو موزوں اور بروقت لگتی ہے۔ڈاکٹر محمد ناظم علی نے رپورتاژ نگاری کی جس روایت کو اس تصنیف میں پیش کیا ہے اس سے امید ہے کہ اردو رپورتاژ نگاری کا دامن وسیع ہوگا ۔ ہر علاقے کے ادیب یا اردو اسکالرز اس طرح کے رپورتاژ پر مبنی کتابیں شائع کرتے رہیں تو اردو کے ادبی اجلاسوں کی تاریخ مرتب ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر محمد ناظم علی کو ان کی اس منفرد کتاب کی اشاعت پر مبارکباد پیش ہے۔امید ہے کہ ڈاکٹر محمد ناظم علی اسی طرح ادبی رپورتاژ پیش کرتے رہیں گے اور اردو زبان و ادب کے قاری کو ادبی اجلاسوں کی روداد سے استفادے کا موقع ملے گا۔ اردو اکیڈیمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہونے والی اس کتاب کو مصنف سے فون:9397994441پر رابطے سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

                                                                       
                                                                        

نام کتاب : ابراہیم جلیس :شخصیت اور فن مصنف : پروفیسر رحمت یوسف زئی مبصر : ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی



نام کتاب    :        ابراہیم جلیس :شخصیت اور فن
مصنف                   :        پروفیسر رحمت یوسف زئی
مبصر       :      ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

            حیدرآباد دکن میں اردو کی خدمت کے حوالے سے تین بھائی ابراہیم جلیس‘محبوب حسین جگر اور مجتبیٰ حسین مشہور ہوئے ہیں۔ محبوب حسین جگر نے روزنامہ سیاست کی نصف صدی تک خدمات انجام دیں اور بہ حیثیت صحافی وہ مشہور ہوئے۔ مجتبیٰ حسین اردو طنز و مزاح کے قطب مینار کے طور پر جانے جاتے ہیں جن کی مزاح نگاری اور کالم نگاری کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ان دوبھائیوں کے تیسرے بھائی ابراہیم جلیس تھے جن کی تصانیف چالیس کروڑ بھکاری(افسانوں کامجموعہ) دو ملک ایک کہانی(رپورتاژ) اور جیل کے دن جیل کی راتیں(رپورتاژ) کے سبب وہ برصغیر کے ادبی حلقوں میں کافی مقبول رہے۔ محبوب حسین جگر اور مجتبیٰ حسین ہندوستان میں ہی رہے لیکن ابراہیم جلیس تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے تھے لیکن رائچور‘گلبرگہ‘حیدرآباد‘بمبئی اور پاکستان میں ان کے قیام نے انہیں اردو کی بین الاقوامی شخصیت بنادیا۔ ابراہیم جلیس پر چیدہ چیدہ مضامین اور کتابیں لکھی گئیں لیکن ان کی حیات اور ادبی کارناموں پر کوئی مبسوط کام نہیں ہوا تھا۔ اردو کے تین بھائیوں سے اہم اس تیسرے بھائی کی حیات اور ادبی کارناموں پر ایک مفصل کتاب ”ابراہیم جلیس :شخصیت اور فن“ کے عنوان سے ان دنوں منظر عام پر آئی ہے جس کے مصنف شعبہ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کے سابق پروفیسر و صدر شعبہ اردو رحمت یوسف زئی صاحب ہیں۔جنہیں اردو کے نامور اساتذہ پروفیسر گیان چند جین اور پروفیسر مجاور حسین رضوی سے اکتساب کا موقع ملا تھا۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی صاحب نے پروفیسر گیان چند جین کے دور صدارت میں اردو کے نامور ناول نگار ابن سعید یعنی پروفیسر مجاور حسین رضوی کے زیر نگرانی ابراہیم جلیس کے فن اور شخصیت پر ایم فل کا مقالہ1983ءمیں لکھا جو تقریباً 36سال بعد زیور طباعت سے آراستہ ہوکر شائع ہوا ہے۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی کا علمی سفر بھی قابل داد رہا۔ انہوں نے سول انجینرنگ میں ڈپلوما اور کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرس کرنے اور ایک کمپنی میں تکنیکی ملازمت کرنے کے باوجود اردو ادب سے اپنے ذوق کی بناءاورینٹل کالج سے ڈپ او ایل‘بے اے اور ایم او ایل عثمانیہ سے کرنے کے بعد یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ایم اے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1987ءمیں انہوں نے”اردو شاعری میں صنائع و بدائع“ موضوع پر پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔ اسی یونیورسٹی میں اردو لےکچرر مقرر ہوئے اور1985ءتا2003ءتک خدمات انجام دیں اور پروفیسر اور صدر شعبہ اردو رہے۔ان کی تحقیق و تنقید اور شاعری میں کئی کتابیں شائع ہوئیں۔ اردو اکیڈیمی کے تحت پہلے کمپیوٹر کورس کے ڈائرکٹر رہے شعبہ اردو میں اردو کمپیوٹر لیب قائم کیا۔کمپیوٹر کی بورڈ کی تشکیل اور مشینی ترجمے پر ان کا گراں قدر کام رہا ہے وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے ابراہیم جلیس پر اپنی تحقیقی کتاب کو کافی عرصے بعد شایع کیا لیکن موضوع کی اہمیت کی بناءان کی یہ کتاب ادبی حلقوں میں مقبول ہونے لگی۔کتاب کا دیباچہ ابراہیم جلیس کے بھائی مجتبیٰ حسین نے لکھا جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ” رحمت یوسف زئی نے اس کام کو انجام دے کر ہمارے خاندان پر جو احسان کیا ہے اسے میں کبھی فراموش نہیں کرسکوں گا۔کیوں کہ ابراہیم جلیس کے بارے میں بھاری بھرکم موادہمارے پاس موجود نہیں ہے۔اس کی وجہہ یہ ہے کہ خود ابراہیم جلیس نے بڑی رواداری اور آپا دھاپی میں زندگی گزاری۔۔جب میں ۷۸ سال کا ہوچکا ہوں مجھ سے بطور پیش لفظ کچھ سطریں لکھوا کر اپنا مقالہ شائع کر رہے ہیں اس کے لیے میں ان کا تہہ دل سے ممنون ہوں“۔ حرف اول کے عنوان سے صاحب کتاب پروفیسر رحمت یوسف زئی نے اس کتاب کی وجہہ اشاعت بیان کی اور ابتداءمیں کہا کہ ” ابراہیم جلیس کو موضوع بنانے کی سب سے بڑی وجہہ یہ ہے کہ میں نے بچپن میں ان کی کتاب’دوملک ایک کہانی‘ پڑھی تھی۔۔پروفیسر رحمت یوسف زئی نے لکھا کہ اس کتاب میں جلیس کی زندگی کے ان اہم گوشوں کا احاطہ کر لیا جائے جنہوں نے جلیس کے فن پر اپنا اثر ڈالا۔اس طرح جلیس شخصیت اور فن کی ہم آہنگی کی نادر مثال نظر آتے ہیں۔جلیس کی زندگی ایسے متنوع حالات سے گزری ہے کہ ان کا احاطہ کرنے کے لیے ایک عمر چاہئے۔تحقیق و جسجتو میں ناتمامی کا احساس ہی ایک سرمایہ ہے۔ اس جستجو کے دوران جلیس کی شخصیت اور ان کے فن کے مختلف گوشے سامنے آتے گئے۔“تحقیقی کتاب ”ابراہیم جلیس:شخصیت اور فن“ کے بیک کور پرشاہد حسین زبیری ٹرسٹی ایچ ای ایچ دی نظامس ٹرسٹ کا پروفیسر رحمت یوسف زئی کے بارے میں مبسوط تعارف ہے جس میں انہوں نے صاحب کتاب کے بارے میں لکھا کہ وہ ایک عمدہ شخصیت کے مالک ہیں ساتھ ہی شرارت ان کی شخصیت کا ایک اٹوٹ حصہ ہے۔ انہوں نے لکھا کہ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے شعر و ادب کی خدمات کے علاوہ تلگو اور اردو تراجم میں بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
            تحقیقی کتاب’ابراہیم جلیس:شخصیت اور فن“ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ ابراہیم جلیس کی حیات اور شخصیت پر مبنی ہے جس کے چار ابواب ہیں۔ اسی طرح ابراہیم جلیس کے فن کو چار ابواب میں دور کے حالات‘تصانیف کا جائزہ‘سیاسی و سماجی شعور اور اسلوب کے تحت جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ابراہیم جلیس کے حالات زندگی اور ان کے دور کے احوال تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اس دور کے برصغیر کی سیاسی ‘سماجی و تہذیبی تاریخ بھی جھلکتی ہے کیوں کہ ابراہیم جلیس کی زندگی کے ادوار میں حیدرآباد میں پولیس ایکشن ہوا تھا ایک جمی جمائی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ ریاست حیدرآباد کا ہند یونین میں انضمام اور اس کے بعد کے حالات کے درمیان ادبی سرگرمیوں کا احاطہ اس کتاب میں بخوبی ملتا ہے۔ کتاب کے آغاز میں شخصیت سازی کے عناصر بیان کرتے ہوئے پروفیسر رحمت یوسف زئی نے لکھا کہ” وراثت‘گھریلو ماحول‘تعلیم و تربیت‘عصری رجحانات‘مادی اور روحانی اقدار‘سماجی‘معاشی‘سیاسی اور معاشرتی اثرات‘جسمانی حالت‘صدمات یا مسرت کے لمحات‘محبت کے معاملات‘جنسی میلانات‘جذباتیت وغیرہ یہ چند عوامل ہیں جن کے زیر سایہ کسی شخصیت کی نشونما عمل میں آتی ہے“۔ ابراہیم جلیس کی زندگی کے ابتدائی دور کے احوال بیان کرتے ہوئے پروفیسر رحمت یوسف زئی نے حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ کے قیام‘جدید تعلیم کے اثرات اور پھر تقسیم کے وقت حیدرآباد کے بدلتے حالات کا جائزہ لیا جس میں ابراہیم جلیس بڑھ کر جوان ہوئے تھے۔ابراہیم جلیس کے حالات زندگی پروفیسر رحمت یوسف زئی نے بڑی تحقیق کے ساتھ مفصل بیان کئے۔ اور لکھا کہ ان کا تعلق عثمان آباد سے تھاجو ریاست حیدرآباد کا حصہ تھا اور بعد میں مہاراشٹرا میں شامل رہا۔ابراہیم جلیس کے دادا محمد حسین والد احمد حسین کے احوال بیان کئے جن کی دو بیویاں تھیں اور اولاد میں محبوب حسین‘عابد حسین صندلی بیگم‘ابراہییم حسین‘یوسف حسین ‘مجتبی حسین ‘ابراہیم جلیس اور سرتاج حسین تھے۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے ابراہیم جلیس کے سنہ ولادت اور تاریخ پر کافی تحقیق کی اور مالک رام کے بیان پر کہ وہ بنگلور میں پیدا ہوئے تحقیق سے ثابت کیا کہ ابراہیم جلیس22ستمبر1923ءکو رائچور میں پیدا ہوئے۔ اس کے لیے انہوں نے محبوب حسین جگراور دیگر سے انٹرویو لے کر حقائق کی کھوج کی۔جلیس کے بچپن کے بارے میں انہوں نے لکھا کہ وہ پہلے خاموش طبع تھے شیروانی پہن کر اسکول جایا کرتے تھے۔ گلبرگہ میں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ گلبرگہ میں فرحت اللہ بیگ سیشن جج تھے ۔ جلیس کو ادبی ذوق ان کی صحبت سے ملا۔انٹر کے بعد والد کی فرمائش پر جلیس علی گڑھ چلے گئے تھے ۔ جہاں انہوں نے بی اے کامیاب کیا اور ترقی پسند نظریات سے واقفیت حاصل کی۔ بی اے کے بعدہ وہ حیدرآباد واپس آئے۔وہ وکالت کرنے کی غرض سے ایل ایل بی میں داخل ہوئے لیکن صحافت اور ملازمت کی وجہہ سے وہ قانون کی تعلیم جاری نہیں رکھ سکے۔حیدرآباد میں اورینٹ ہوٹل اور نظامیہ ہوٹل میں ہونے والی ادبی نشستوں کے درمیان جلیس کے ادبی سفر کو پروفیسر رحمت یوسف زئی نے تفصیل سے بیان کیا جب کہ اس دور میں مخدوم‘سلیمان اریب‘یوسف ناظم‘شاہد صدیقی ‘عالم خوندمیری کے چرچے تھے۔پروفیسر رحمت یوسف زئی نے لکھا کہ جلیس کو حیدرآباد میں سیول سپلائز کارپوریشن میں ملازمت ملی۔1946ءمیں ان کی شادی گلبرگہ کے ایک رئیس گھرانے میں کنیز فاطمہ سے ہوئی۔بعد میں جلیس نے ملازمت سے استعفیٰ دیا۔جلیس کی دکن ریڈیو میں ملازمت‘پولیس ایکشن کے وقت ان کے رضاکاروں میں شمار اور چھپتے چھپاتے براہ بمبئی ان کی پاکستان روانگی اور پولیس ایکشن کی خونیں یادوں کو پروفیسر رحمت یوسف زئی نے واقعاتی انداز میں بیان کیا۔ جلیس کی پاکستان میں شہرت اور وہاں سرکاری اداروں میں ان کی ملازمت اور مختلف اخبارات میں ان کے کام کی تفصیلات اس کتاب میں ملتی ہیں۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے لکھا کہ جلیس 1960ءمیں حیدر آباد آئے تھے تو ان کا بھرپور خیرمقدم کیا گیا تھا۔ پاکستان میں ان کی اولاد کی ترقی اور دیگر یادیں اس کتاب کا حصہ ہیں۔جلیس کی مختصر بیماری اور 27اکتوبر1977ءکو ان کے انتقال کی تفصیلات کتاب میں شامل ہیں۔جلیس کے حالات کے ساتھ اس کتاب میں برصغیر کی نصف صدی کی سیاسی و ادبی تاریخ شامل ہے کیوں کہ جلیس کا بچپن اور جوانی کے ایام دکن میں گزر ے تھے اور عملی زندگی کے ایام پاکستان میں گزرے تھے اور دونوں ملک تبدیلی کے دور سے گزر رہے تھے۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی نے جلیس کی شخصیت کے مختلف پہلوں کو دوست احباب کی ملاقاتوں کے حوالے سے بیان کیا۔ اور ادب اور سیاست میں ان کی وابستگی کو اجاگر کیا۔
            کتاب کے دوسرے حصے فن کے تحت پروفیسر رحمت یوسف زئی نے ابراہیم جلیس کے تخلیقی سفر میں افسانہ‘ناول‘ڈرامہ‘مضامین‘خاکے ‘پیروڈی‘رپورتاژ‘ترتیب و تدوین اور صحافت و کالم نگاری عنوانات کے تحت ابراہیم جلیس کے فن کا کہیں مفصل اور کہیں اختصار سے جائزہ لیا۔ اس جائزے میں اصناف کے تعارف اور ان کی فنی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔پروفیسر رحمت یوسف زئی نے مرزا ظفر الحسن کے حوالے سے لکھا کہ ابراہیم جلیس کا پہلا افسانہ ”جوتا چور “ ہے۔ 1945ءمیں ان کے افسانوں کا مجوعہ”زرد چہرے“ شائع ہوا۔ابراہیم جلیس کے افسانوں کے تعارف کے ساتھ ان کے افسانوں کا انفرادی جائزہ پیش کیا گیا ہے لیکن جلیس کی افسانہ نگاری کے فن پر اجمالی جائزہ پیش نہیں کیا گیا۔ لیکن انفرادی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ جلیس کے افسانوں میں اپنے عہد کی آواز جھلکتی ہے۔ ناول کے جائزے کے تحت پروفیسررحمت یوسف زئی نے ابراہیم جلیس کے واحد ناول چور بازار کا ذکر کیا جو 1946ءمیں لکھا گیا۔اس ناول میں جلیس نے تعلیم یافتہ بیروزگار نوجوان کی زندگی کو پیش کیا ہے۔ ڈرامے کے تحت جلیس کے ڈرامے”اجالے سے پہلے“1955ئ‘مضامین کے تحت مضامین کے مجوعہ” ایک پیسے کی خاطر“کا جائزہ لیا گیا ہے۔خاکے کے تحت جلیس کے لکھے خاکوں کا تفصیلی جائزہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ گاندھی جی کے قتل پر ان کا نثری مرثیہ ”ہندوستان مر گیا“ کا جائزہ بھی اس کتاب میں شامل ہے۔رپورتاژ کے تحت جلیس کے اہم رپورتاژ ” دو ملک ایک کہانی“ میںحیدرآباد کے پولیس ایکشن کی یادیں بیان کی گئی ہیں۔ پروفیسر رحمت یوسف زئی لکھتے ہیں کہ اس رپورتاژ میں انہوں نے حیدرآباد کی سیاسی جد وجہد کا تجزیہ کیا ہے۔اور ان سارے نظریات کو بھی پیش کردیا جنہوں نے حیدرآباد کو ایک نئے موڑ پر لاکھڑا کردیا تھا۔۔جب تک ایمان داری کی قدر باقی رہے گی ”دو ملک ایک کہانی“ زندہ رہے گی اور اس کے ساتھ ساتھ جلیس کا نام بھی زندہ رہے گا۔ترتیب و تدوین کے عنوان سے جلیس کی مرتب کردہ کتاب“بھوکا ہے بنگال“اور صحافت و کالم نگاری کے تحت جلیس کی صحافتی خدمات کا احاطہ اس کتاب میں شامل ہے۔ آخر میں جلیس کے اسلوب اور ان کے سیاسی و سماجی شعور کا جائزہ لیا گیا ہے۔مجموعی طور پر یہ کتاب ابراہیم جلیس فن اور شخصیت نہ صرف جلیس کی حیات اور کارناموں کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اس کتاب سے بیسویں صدی کے ہندوستان و پاکستان کے حالات اورتقسیم ہند کی تفصیلات سے واقفیت ہے۔ اس دوران مختلف ادبی وثقافتی سرگرمیوں کا پتہ چلتا ہے اس طرح یہ کتاب برصغیر کی بیسویں صدی کی ایک تاریخی دستاویز ہے۔کتاب کا اسلوب دلچسپ ہے اور قاری کو بھرپور مطالعے کی ترغیب دیتا ہے۔ کتاب چونکہ لکھے جانے کے کافی عرصے بعد شائع ہوئی اور بہ قول مصنف اسے ان حالات میں ہی مطالعہ کیا جائے لیکن بعض شخصیات کے گزر جانے کے بعد بھی انہیں زندہ بیان کیا گیا ۔ جیسے محبوب حسین جگر وغیرہ۔ اس کے علاوہ جلیس کے فن کا اجمالی جائزہ کتاب میں کھٹکتا ہے ۔افسانوں‘ناول اور دیگر فن پر انفرادی جائزہ ہے لیکن اجمالی جائزہ کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ افسانوں کے علاوہ دیگر فنی امور پر جائزہ مختصر ہے۔ سرورق پر جلیس کی تصویر ان کی یاد دلاتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب دلچسپی کی حامل ہے۔ کتاب کی قیمت400روپئے ہے اور آئی ایس بی این نمبر کے ساتھ یہ مجلد کتاب ایجوکیشنل بک ہاز نئی دہلی سے شائع ہوئی اور اسے مصنف سے ان کے فون نمبر 9848093057سے رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔

Search This Blog